اندازہ نہیں تھا کہ نوے کی دہائی بھی سنہرا دور کہلائے گی: نور الحسن

نور الحسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے جون 1998 میں کام شروع کیا تھا اور وہ اس سے پچھلے دور کو سنہرا دور کہا کرتے تھے، ’یہ نہیں معلوم تھا کہ نوے کی دہائی بھی سنہرا دور کہلائے گی۔‘

میزبان و اداکار نور الحسن کو ٹی وی دیکھنے والے 25 سال سے زیادہ عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے تقریباً وسط میں اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے نور الحسن نے درجنوں یادگار ڈراموں میں اداکاری سے ناظرین کو مسحور کیا ہے۔ ان کی ایک وجہ شہرت میزبانی بھی ہے جسے وہ اب کم کم ہی کرتے ہیں۔

جب مجھے نورالحسن کے انٹرویو کے لیے کہا گیا تو مجھے لگا کہ یہ کام تو آسانی سے ہوجائے گا لیکن نور الحسن کو انٹرویو پر قائل کرنا کافی مشکل کام نکلا۔

پہلے تو انہوں نے صاف انکار ہی کردیا، پھر اپنے تجربے کو استعمال میں لا کر اور کچھ نورالحسن صاحب کے بقول ’ایموشنل بلیک میل‘ کرکے انہیں راضی کر ہی لیا۔

اس انٹرویو کی جگہ کا تعین ایک علیحدہ مسئلہ تھا جو آخر کار کراچی میں موجود ناپا کے برامدے میں منعقد کیا گیا۔

سب کچھ کرکے آخر میں جب آمنے سامنے بیٹھے تو پہلا سوال یہی تھا کہ گزرے وقت کو کیسے دیکھتے ہیں کہ وہ سنہرا دور تھا۔

اس بارے میں نور الحسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے جون 1998 میں کام شروع کیا تھا اور وہ اس سے پچھلے دور کو سنہرا دور کہا کرتے تھے، ’یہ نہیں معلوم تھا کہ نوے کی دہائی بھی سنہرا دور کہلائے گی۔‘

25 سال پہلے کے دور کو یاد کرتے ہوئے نور حسن نے کہا کہ ’بہت سی یادوں میں چند بڑے واقعات یہ ہیں کہ 2000 میں ملک میں سیلاب آیا تھا جس کی ٹرانسمیشن کرنا تھی اور طارق عزیز مرحوم نے مجھے جب مائیک دیا تو وہ بہت یادگار موقع تھا، ویسے طارق عزیز صاحب کافی شفیق تھے اور بہت خیال کیا کرتے تھے۔‘

ان کے مطابق ’اسی طرح ایک مرتبہ جب میں پنجابی شو کیا کرتا تھا تو کسی نے مجھے کہا کہ آپ دلدار پرویز بھٹی کی نقل کرتے ہیں، تو میں نے خوش ہوکر کہا کہ ایک بار پھر کہنا۔ پھراسی طرح جب پہلے پی ٹی وی ایوارڈ میں جب میرا نام مستنصر حسین تارڑ نے پکارا تو بہت اچھا لگا، اسی طرح ساری یادیں ہی پیاری ہیں۔‘

نور الحسن نے بتایا کہ 1986 میں جب وہ نویں جماعت میں تھے تو ٹی وی پر پہلی مرتبہ آئے تھے، وہ ایک نعت تھی جسے کورس میں پڑھا گیا تھا اور وہ شہنشاہ نواب کا پروگرام تھا۔

نور الحسن کے مطابق انہوں نے کبھی ٹی وی کو اپنے کیریئر کے طور پر نہیں سوچا تھا، وہ اسے ایک مہم جوئی یا آزمائشی انداز میں کرنے کے خواہاں تھے۔

ان کے مطابق ’اسی ضمن میں پہلا چیک 375 روپے کا ملا تھا، میں اس وقت ایک جگہ ملازمت بھی کرتا تھا تو مجھے دوستوں نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو، تو میں نے کہا بس کچھ وقت ہے اسی میں کر رہا ہوں۔‘

نور الحسن نے بتایا کہ 2000 میں انہوں نے یہ کام ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن اس وقت اصغر ندیم سید نے انہیں کام جاری رکھنے پر آمادہ کرنے میں کردار ادا کیا، جس کے بعد انہوں نے ٹی وی جاری رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے 2001 میں شادی سے 15 دن پہلے نوکری چھوڑ دی کیونکہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ ٹی وی بیوی اور نوکری، ان تینوں کو ساتھ نہیں چلا سکتا ہوں۔‘

ڈراموں میں جلد ہی ابّا کے کردار شروع کردینے پر کہ ابھی تو ان کے ہم عصر ہیرو آرہے ہیں، نور حسن نے کہا کہ ابھی تو ان سے عمر میں بڑے لوگ بھی ہیرو آ رہے ہیں۔

 اس ضمن میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ کسی ڈرامے میں وہ احسن خان کے والد کا کردار کررہے تھے تو احسن نے ان سے کہا کہ ’یار نور ہم تو آس پاس ہی کے ہیں صرف چند سالوں ہی کا فرق ہے‘، تو نور حسن کے مطابق انہوں نے احسن خان سے کہا کہ ’یہ تمہارے لیے مسئلہ ہے، میرے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

نور الحسن نے  بتایا کہ جب وہ اداکاری کی جانب میزبانی چھوڑ کر آئے تھے تو انہیں ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ آپ تو یہاں بھی میزبانی ہی کر رہے ہیں۔

 یہاں انہوں نے دیکھنے والوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہمیشہ ان کے کام کو سراہا ہے حالانکہ وہ کبھی بال رنگنے کے قائل نہیں رہے، داڑھی ان کی شخصیت کا حصہ ہے اور وگ پہنتے نہیں ہیں، البتہ وہ کسی کردار کے لیے مصنوعی بالوں کی وگ پہننے کو تیار ہیں۔

’خئی‘ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ڈراما دل کے قریب اس لیے ہے کہ یہ خالد بٹ صاحب کا آخری ڈراما تھا جس میں انہوں نے کمال ہی کر دیا ہے، جیسے محبوب عالم نے ڈراما سیریل وارث میں کردار کیا تھا، ویسے ہی یہ کردار ہے، اور خالد بٹ کے جانے کے بعد اب اس کی یاد ہی بدل گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نور الحسن نے کہا کہ کہانی کی نوعیت بدل رہی ہے، کابلی پلاؤ ایک مثال ہے، دنیا میں نئے موضوعات تلاش کیے جا رہے ہیں، تو ممکن ہے کہ وہ بھی کسی کردار میں ہیرو کے طور پر آ جائیں۔

خدا اور محبت میں اپنے کردار کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ چاہتے تھے کہ یہ قوی خان کریں اور ان کے پاس بھی گئے تھے لیکن وہ ان دنوں کچھ اور کام کررہے تھے، پھر انہوں نے وہ کردار کیا جو 90 فیصد ملتان میں حضرت شمس تبریز پر فلمایا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’اس ڈرامے کا ایک سین حضرت شاہ رکن عالم کے مزار کے پاس کیا تھا تو بعد میں وہاں کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ لوگ اب اس جگہ زیادہ آ رہے ہیں، بلکہ کچھ تو پوچھتے ہیں کہ وہ بابا دھمال کتنے بجے ڈالتا ہے۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ کمال مصنف ہاشم ندیم کے لکھے ہوئے مکالموں کا تھا۔‘

پی ٹی وی پر گیم شو کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے ایک پنجابی گیم شو کیا کرتے تھے جو نیٹ ورک پر نہیں بلکہ لاہور سینٹر سے ہوتا تھا۔ فن گاما پہلا شو تھا جو نیٹ ورک پر آیا تھا۔

اس بارے میں انہوں نے کہا کہ عبید اللہ بیگ نے ان سے کہا کہ ’آپ کی وجہ سے اب ہمیں فن گاما بھی دیکھنا پڑے گا‘ تو وہ لمحہ بہت اعزاز کی بات تھی ’وہ پی ٹی وی کا پہلا گیم شو تھا جسے کافی سال کیا جس میں چار مرتبہ ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوئی مگر ایوارڈ نہیں ملا۔‘

انہوں نے کہا کہ ابھی وہ کوئی گیم شو اور ٹاک شو کے ملاپ سے کوئی کام کرنا چاہتے جس پر غور کررہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دھوپ کنارے کے ساجد حسن کو دیکھ کر ہی انہیں حوصلہ ملا تھا کہ ان جیسے کم بال والے بھی اداکاری کرسکتے ہیں۔

اداکاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک سندھ سے ہیرو ایک ہی آیا ہے اور وہ فہد مصطفٰی ہے۔

‘وہ بہت محنت کرتا ہے، ایکٹر ان لا میں جب ہم بار بار بھیگتے تھے تو ایک بار بھی اس کے ماتھے پر شکن نہیں آئی، فہد مصطفٰی سیٹ پر سکرپٹ پڑھتا دکھائی نہیں دیتا وہ اتنی تیاری سے آتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی