تھر: زمینی تنازعے میں ایک شخص قتل، ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین تاحال ’دشمن کی جائیداد‘

تھرپارکر میں مقامی لوگوں کے پاس زرعی زمین کے مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔ تاہم ضلع تھرپارکر انتہائی پرامن خطہ سمجھا جاتا ہے، جہاں زمین کی تکرار پر کسی کو قتل کرنے کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔

تھرپارکر ضلع کے بھوڈیسر تالاب کا منظر۔ پارکر میں اس طرح کے متعدد قدرتی تالاب ہیں۔ جن کے پانی سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے(امر گُرڑو/ انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ کے ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگرپارکر کی پولیس نے جمعے کو بتایا کہ مقامی کولہی برادری کے دو فریقوں میں زمین کے معاملے پر کلہاڑی لگنے سے ایک شخص قتل اور 11 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

ننگرپارکر تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) علی اصغر جروار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ننگرپارکر شہر سے تقریباً 24 کلومیٹر کے فاصلے پر کارونجھر پہاڑی کے مغرب میں سودھران گاؤں کی رہائشی کولہی برادری کے کچھ افراد زمین پر جھاڑیاں کاٹ کر زمین کو صاف کررہے تھے کہ لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے لیس افراد نے حملہ کردیا۔

علی اصغر جروار کے مطابق: ’لاٹھی اور کہلاڑی لگنے سے ایک شخص جان سے گیا اور دو خواتین سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے۔ واقعے کا جلد مقدمہ دائر کریں گے۔‘

ضلع تھرپارکر شمالی سندھ کے اضلاع کی نسبت انتہائی پرامن خطہ سمجھا جاتا ہے، جہاں زمین کی تکرار جیسے معاملات پر کسی کو قتل کرنے کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔

ننگرپارکر کے رہائشی سماجی ورکر 66 سالہ اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق انہوں نے اپنی پوری زندگی میں اس خطے میں زمین کی تکرار پر صرف دو افراد کے قتل ہونے کا سنا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اللہ رکھیو کھوسو نے کہا: ’تھرپارکر ضلع پرامن ہے، مگر اس میں ننگرپارکر تحصیل انتہائی پرامن سمجھی جاتی ہے۔ میں نے اپنی 66 سالہ زندگی میں صرف زمین کی ملکیت کے جھگڑے میں صرف دو افراد کے قتل سنا ہے۔ 15 سال قبل ایک شخص زمین کی تکرار پر قتل ہوا اور اس کے بعد اب یہ کولہی قتل ہوا ہے۔‘

’سالانہ تقریباً 10 ارب روپے کی فصلیں‘

تھر کا نام سنتے ہی ذہن میں ریت کے ٹیلے، بھوک سے مرتے بچے اور پانی کی تلاش میں سرگرداں خواتین کا تصور آتا ہے۔ مگر ضلع تھرپارکر کا نام دو مختلف جغرافیائی خطوں تھر اور پارکر کو ملا کر دیا گیا۔

پارکر تھر سے یکسر مختلف خطہ ہے۔ جہاں تھر کی طرح ریت کے ٹیلوں کی بجائے وسیع رقبے پر ٹھوس زمین کے میدان ہیں۔

پارکر میں موجود پہاڑی سلسلے کارونجھر سے نکلنے والی متعدد چھوٹی بڑی ندیوں کے پانی سے اس خطے میں بڑے پیمانے پر زراعت کی جاتی ہے۔

اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق پارکر میں باجرہ، مونگ، موٹھ سمیت گندم کی خاص قسم بھی کاشت کی جاتی ہے، جو انتہائی معیاری سمجھی جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے  اللہ رکھیو کھوسو نے کہا: ’پارکر میں اچھی کوالٹی کا پیاز بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ اس سال مقامی منڈی میں تقریباً ساڑھے تین ارب روپے کی مالیت کا تین لاکھ من پیاز آیا۔ اس کے علاوہ پارکر میں چھوٹی سائز کی ہری مرچی بھی کاشت کی جاتی ہے۔ جسے لونگی مرچ کہا جاتا ہے۔

’پارکر میں موجود باغات میں آم، امرود، لیموں، چیکو سمیت مختلف قسم کے پھل لگتے ہیں۔ پارکر میں سالانہ تقریباً 10 ارب روپے کی مالیت کی فصل ہوتی ہیں۔‘

 پارکر میں کھیتی باڑی بارش، قدرتی تالابوں اور ڈیموں کے پانی پر کی جاتی ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق تحصیل ننگرپارکر میں گذشتہ چند دہائیوں میں 34 چھوٹے بڑے ڈیم بنائے گئے ہیں۔

’ان ڈیموں میں اکثریت یہاں پہلے سے موجود قدرتی تالابوں کی ہے، جن میں کارونجھر پہاڑی کے پتھر کو بچھا کر ڈیم بنائے گئے ہیں۔ کارونجھر پہاڑی میں گرینائیٹ کا پتھر ہے جو بارش کے پانی کو جزب نہیں کرتا اور کارونجھر پر پڑنے والی بارش کا تمام پانی چھوٹی بڑی ندیوں اور برساتی نالوں کو ان ڈیموں میں بھر دیتا ہے۔ جس پر مقامی لوگ اتنی بڑی لیول پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

’اس کے علاوہ ندیوں اور نالوں کے اطراف والے علاقوں میں زیر زمین پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ تو وہاں لوگ کنویں کھود کر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔‘

زرعی زمین کے مالکانہ حقوق نہ ملنے کے باعث تھرپارکر میں زمین پر تنازعات کا خطرہ

اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق تھرپارکر میں مقامی لوگوں کے پاس زرعی زمین کے مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔ سالوں سے دہائیوں سے کھیتی باڑی کرنے کے باوجود لوگوں کو اس زمین کے سرکاری طور پر مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول اللہ رکھیو کھوسو: ’ماضی میں انسانی آبادی کم تھی، پانی کے ذرائع بھی اتنے نہیں تھے۔ ڈیم بننے، آبادی بڑھنے کے بعد زراعت کا رجحان بھی بڑھا ہے، اس لیے لوگ زیادہ زمین پر کھیتی باڑی کرنا چاہتے ہیں اور مالکانہ حقوق نہ ہونے کے باعث زمین کے تنازعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

بورڈ آف ریوینیو کے قانون کے مطابق سندھ میں زمین کی الاٹمنٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں جن میں سروے زمین (99 سال کی لیز)، این اے کلاس (NA Class) زمین (زرعی مقاصد کے لیے 30 یا 33 سالوں کی لیز) اور تیسری موروثی زمین (زرعی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمین) شامل ہیں۔

مگر تھرپارکر میں زمین کی الاٹمنٹ کا مختلف فارمولہ ہے۔ کوئی بھع فرد سرکار سے رقم کے عوض کوئی زمیں ایک سال کے لیے لیز پر لیتا ہے تو اس زمین کو یک سالہ کہا جاتا ہے۔

دوسرے سال سے چوتھے سال تک ’ناقبولی‘ زمین اور پانچویں سال کے بعد لیز کو ’ہمیشگی‘ کہا جاتا ہے۔ ہمیشگی کے بعد سروے کرکے مالکانہ حق دیا جاتا ہے۔

اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق: ’تھر پارکر میں 1970 کی دہائی سے لینڈ الامنٹ بند ہے اور اکثر لوگوں کے پاس یک سالہ ناقبولی کی لیز ہے اور ان کو تاحال سروے کرکے مالکانہ حقوق نہیں مل سکے ہیں۔‘

تھرپارکر کی ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین کو سرکاری طور پر ’دشمن کی جائیداد‘ کا درجہ

پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1971 میں ہونے والی جنگ کے دوران جو لوگ نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد، زرعی زمین، گھر اور دکانوں کو حکومت پاکستان کی جانب سے ’اینیمی پراپرٹی‘ یا ’دشمن کی جائیداد‘ کا درجہ دیا گیا۔

وفاقی سطح پر اس جائیداد کا انتظام دیکھنے کے لیے وزارت مواصلات میں ایک ذیلی ادارہ ’کسٹوڈین آف اینیمی پراپرٹی فار پاکستان‘ بھی بنا ہوا ہے۔

یہ زمینیں پاکستان میں مختلف علاقوں میں ہیں۔

1947 میں قیام پاکستان کے دوران انڈیا نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی جائیداد کو سرکاری طور پر ’وقف جائیداد‘ کا نام دیا گیا تھا۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن سندھ اسمبلی اور تھر کے ٹھاکر قبیلے سے تعلق رکھنے والے رانا ہمیر سنگھ نے گذشتہ ہفتے وزیر اعلی سندھ کو درخواست دی کہ تھرپارکر ضلع میں اینیمی پراپرٹی کے نام پر ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین وہاں کے مکانی لوگوں کو الاٹ کی جائے۔

درخواست پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سمری منظوری کے لیے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ہمیر سنگھ نے کہا: ’1971 کی جنگ کے دوران تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع سے لوگ بڑی تعداد میں انڈیا چلے گئے، جن میں اکثریت ہمارے ٹھاکروں کی تھی۔ ان کی جائیداد کو حکومت پاکستان نے اینیمی پراپرٹی کا درجہ دیا۔ ان لوگوں نے ساڑھے سات لاکھ ایکڑ زمین کے علاوہ گھر اور دکانیں بھی چھوڑی تھیں۔

’1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں تھرپارکر اور عمرکوٹ کی پانچ لاکھ ایکڑ زمین مقامی لوگوں کو دی گئی، مگر تاحال ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین اینیمی پراپرٹی ہے، یہ زمین مقامی لوگوں کو دینے کے لیے سندھ حکومت کو درخواست دی ہے۔‘

اس سلسلے میں سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ترجمان وزیراعلی سندھ عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’اس زمین کو اینیمی پراپرٹی کا درجہ کئی دیہائی پہلے دیا گیا تھا۔ رانا ہمیر سنگھ کی درخواست پر قانون کے مطابق کرروائی کی جائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان