’نصراللہ کو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں‘: زخمی صحافی چل بسے

نصر اللہ گڈانی کو 21 مئی کو میرپور ماتھیلو شہر کے قریب موٹرسائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا، جو 24 مئی 2024 کو کراچی میں دوران علاج چل بسے۔

نصر اللہ گڈانی سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھے اور کرپشن اور عوامی مسائل پر بہادری سے بات کرتے تھے (نصر اللہ گڈانی فیس بک)

سندھ کے ضلع گھوٹکی کے شہر میرپور ماتھیلو میں 21 مئی کو مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے صحافی نصر اللہ گڈانی جمعے کو کراچی کے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران چل بسے۔

میرپور ماتھیلو کے قریب گبول خان گڈانی گاؤں کے رہائشی 35 سالہ نصر اللہ گڈانی کئی سالوں سے سندھی زبان کے اخبار ’عوامی آواز‘ سے وابستہ اور میرپور ماتھیلو پریس کلب کے سینیئر نائب صدر بھی تھے۔

’عوامی آواز‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر جبار خٹک کے مطابق نصر اللہ گڈانی کو 21 مئی کو میرپور ماتھیلو شہر کے قریب موٹرسائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا۔ انہیں علاج کے لیے شیخ زید ہسپتال، رحیم یار خان منتقل کیا گیا اور پھر بہتر علاج کے لیے ایدھی ایئر ایمبولینس سے کراچی منتقل کیا گیا، جہاں جمعے کی صبح وہ چل بسے۔

ڈاکٹر جبار خٹک کے مطابق: ’نصر اللہ گڈانی ایک بہترین اور پروفیشنل صحافی تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھے اور کرپشن اور عوامی مسائل پر بہادری سے بات کرتے تھے۔ انہیں ان کی رپورٹنگ کی بنیاد پر کئی بار دھمکیاں بھی ملتی رہتی تھیں۔‘

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) سکھر ریجن سید پیر محمد شاہ کے مطابق نصر اللہ گڈانی پر حملے کے واقعے کی تحقیق کے لیے پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیر محمد شاہ کے مطابق: ’پولیس حکام نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) گھوٹکی کی سربراہی میں پانچ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو اس واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ جلد ہی نصر اللہ گڈانی پر حملہ کرنے والے افراد کو گرفتار کرلیا جائے گا۔‘

میڈیا واچ ڈاگ ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے نصر اللہ گڈانی کے قتل پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جب تک پاکستان میں سزا سے چھوٹ کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک صحافیوں پر حملے ہوتے رہیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اقبال خٹک نے کہا: ’صحافیوں پر حملہ کرکے انہیں قتل یا زخمی کرنے والے افراد کو سزا نہیں ہوتی، جس کے باعث انہیں صحافیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تقویت ملتی ہے۔ سزا میں چھوٹ کے باعث لوگوں کو لگتا ہے کہ کوئی بھی کارروائی کرنے پر انہیں چھوٹ مل جائے گی، اس لیے وہ بے خوف حملے کرتے ہیں۔‘

 رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی 2022 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں 20 سالوں میں 93 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

اقبال خٹک کے مطابق 2024 میں دوصحافیوں کو ان کی رپورٹنگ کے باعث قتل کیا گیا ہے، جن میں شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ کے صحافی کامران داوڑ کو 21 مئی کو قتل کیا گیا اور اسی روز نصر اللہ گڈانی پر حملہ ہوا اور وہ آج کراچی کے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران جان سے چلے گئے۔

بقول اقبال خٹک: ’کامران داوڑ نے میران شاہ پریس کلب کو آگاہ کیا تھا کہ انہیں ان کے کام کی وجہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں جبکہ نصر اللہ گڈانی پر بھی ان کے کام کے باعث حملہ ہوا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اسی طرح رواں برس جنوبی پنجاب کی ایک صحافی کو بھی قتل کیا گیا، جب جہلم کے قریب ایک خاتون صحافی نوشین کی لاش ملی، مگر تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں ان کے کام کے باعث قتل کیا گیا یا کوئی ذاتی دشمنی تھی۔‘

اقبال خٹک کے مطابق سندھی زبان کا میڈیا بہت بااثر ہے اور اس میڈیا کے ساتھ سندھ میں کام کرنے والے صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ حملے ہوتے ہیں۔ ’ہم چند روز میں ایک رپورٹ جاری کر رہے ہیں، جس میں 2018 سے دسمبر 2023 تک کا ڈیٹا ہے، جس کے مطابق اس عرصے میں سندھ میں مارے جانے والے 10 صحافیوں میں سے نو سندھی زبان بولنے والے صحافی تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان