ہر سال 30 کروڑ بچوں کو آن لائن جنسی استحصال کا سامنا: تحقیق

ایک محقق کا کہنا ہے کہ صرف برطانیہ میں مرد مجرموں کی تعداد ’گلاسگو سے لندن تک پھیل سکتی ہے۔‘

ای سپورٹس کھیلنے والا ایک بچہ 16 جنوری 2019 کو برلن کے ایک گیمنگ ہاؤس میں مشق کر رہا ہے (اے ایف پی)

ایک تحقیق کے مطابق، سالانہ 300 ملین سے زیادہ بچے آن لائن جنسی استحصال اور بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کے محققین کو اس بحران کے پیمانے کے بارے میں پہلے عالمی تخمینے میں معلوم ہوا کہ ہر آٹھ میں سے ایک یا دنیا میں گذشتہ ایک سال کے دوران 12.6 فیصد بچوں کے ساتھ ایسی گفتگو کی گئی جن میں ان کی مرضی شامل نہیں تھی۔ ان کی رضامندی کے بغیر ان کے ساتھ ناشائستہ تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئیں۔ یعنی تقریباً 30 کروڑ 20 لاکھ بچے ان سرگرمیوں کا شکار بنے۔

اس کے علاوہ، عالمی سطح پر 12.5 فیصد بچوں (30 کروڑ) کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ انہیں گذشتہ سال آن لائن کیے جانے والے تقاضوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں بالغ یا دوسرے کم عمر افراد کی طرف سے ناپسندیدہ جنسی گفتگو جس میں بچوں کی مرضی کے بغیر انہیں فحش پیغامات بھیجنا، ناپسندیدہ جنسی سوالات اور ناپسندیدہ جنسی افعال کی درخواستیں شامل ہو سکتی ہیں۔

یہ جرائم ’جنسی بھتہ خوری‘ کی شکل بھی اختیار کرسکتے ہیں، جب مخصوص افراد تصاویر کو اپنے تک رکھنے رکھنے کے لیے متاثرہ بچوں سے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ اس نوعیت کے مسائل دنیا کے تمام حصوں میں موجود ہیں لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ خاص طور پر ایک ایسا ملک ہے جہاں خطرہ زیادہ ہے۔

یونیورسٹی کے ’چائلڈ لائٹ‘ اقدام کا مقصد بچوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو سمجھنا ہے۔ اس اقدام میں ’انٹو دی لائٹ‘ کے نام سے ایک نیا عالمی پیمانہ شامل ہے شامل ہے جس کے تحت معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں ہر نو میں سے ایک مرد (تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ) نے کسی نہ کسی موقعے پر بچوں سے آن لائن بدسلوکی کا اعتراف کیا۔

سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سات فیصد یا 18 لاکھ مردوں نے اسی طرح کا اعتراف کیا جب کہ آسٹریلیا میں 7.5 فیصد مردوں نے ایسا ہی اعتراف کیا۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بہت سے مردوں نے اعتراف کیا کہ اگر ان کے خیال میں معاملے کو خفیہ رکھا جائے گا تو وہ بچوں کے خلاف جسمانی جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کریں گے۔

چائلڈ لائٹ کے سربراہ پال سٹین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ صورت حال اس حیرت انگیز پیمانے پر ہے کہ صرف برطانیہ میں مرد مجرموں کی ایک قطار بنائی گئی جو گلاسگو سے لندن تک پھیلی ہو سکتی یا ویمبلے سٹیڈیم کو 20 گنا زیادہ بھر سکتی ہے۔

’بچوں کے استحصال کا مواد اتنا عام ہے کہ اوسطاً ہر سیکنڈ میں ایک بار نگران یا دوسرے متعلقہ اداروں کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔

’یہ صحت کی عالمی وبا ہے جو ایک طویل عرصے سے اب تک چھپی رہی۔ ایسا ہر ملک میں ہوتا ہے۔ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے خلاف عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

’ہمیں فوری طور کارروائی کرنے اور اس سے عوامی صحت کے مسئلے سے طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے جسے حل کیا جا سکتا ہے۔ بچے انتظار نہیں کر سکتے۔‘

یونیورسٹی میں عالمی سطح پر بچوں کے تحفظ کی پروفیسر ڈیبی فرائی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ’ہر کلاس روم، ہر سکول، ہر ملک میں بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بے ضرر تصاویر نہیں ہیں، یہ انتہائی نقصان دہ ہیں، اور بدسلوکی ہر نظارے کے ساتھ جاری ہے اور بدسلوکی پر مبنی اس مواد کو ہٹانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔‘

انٹرپول کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سٹیفن کاواناگ نے کہا: ’آن لائن استحصال اور بدسلوکی دنیا کے بچوں کے لیے واضح اور موجود خطرہ ہے، اور قانون نافذ کرنے کے روایتی طریقوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

’ہمیں عالمی سطح پر مل کر بہت کچھ کرنا ہوگا جس میں ماہر تفتیش کاروں کی تربیت، معلومات کا بہتر تبادلہ اور آلات شامل ہیں تاکہ اس وبائی مرض اور اس سے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کی زندگی کو پہنچنے والے نقصان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریدہ، جن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، بچوں کے آن لائن جنسی استحصال اور بدسلوکی کا شکار ہونے والی خاتون ہیں جنہیں 13 سے 18 سال کی عمر میں 30 سال سے زیادہ عمر کے شخص نے سوشل میڈیا کے ذریعے نشانہ بنایا۔

فریدہ کے بقول: ’یہ بڑا الگ تھلگ کر دینے والا تجربہ تھا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے کچھ غلط کیا۔

’چائلڈ لائٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف میرا ساتھ ہی ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر روز زیادہ سے زیادہ بچے آن لائن خوفناک بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کر رہے ہیں۔

’فی الحال بدسلوکی کے بارے میں ہماری تفہیم اکثر اس مواد تک محدود ہے جو ٹیک پلیٹ فارم آن لائن استحصال کی حقیقت کی بجائے، شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’نقصان کو سمجھنے اور روکنے کے لیے ہمیں ان پلیٹ فارمز کو جوابدہ بنانے اور متعلقہ نگران اداروں کو ہر سال اس نقصان سے متاثر ہونے والے لاکھوں بچوں کے ساتھ کام کرنے کی خاطر ضروری سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے مؤثر ضابطہ بنانا ہو گا۔‘

آن لائن بدسلوکی سے متاثر ہونے والی گریس ٹیم گریس نامی ایک اور خاتون، ٹیم فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں، جو بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام اور جوابی کارروائی کے لیے کام کرنے میں مصروف ہیں۔

گریس کے بقول: ’بچوں کا جنسی استحصال صحت کا عالمی بحران ہے جو اس ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے تیزی سے سنگین ہوتا جا رہا ہے جو بچوں کے استحصال پر مبنی مواد کی فوری تیاری اور لامحدود تقسیم اور کسی ضابطے کے بغیر بچوں تک آن لائن رسائی کو ممکن بناتی ہے۔

’بچوں کو تحفظ فراہم کے عالمی سطح پر مرکزی تحقیقی ڈیٹا بیس کا قیام ضروری ہے۔ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے جرم کے ارتکاب اور انصاف سے بچنے کے لیے بنانیے اور معلومات کو مسلسل ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

’چائلڈ لائٹ باقی ماندہ برادری کے اختیارات بحال کر کے ان (بچوں کا استحصال کرنے والوں) کی صلاحیتوں کو محدود کرے گا۔

سکاٹ لینڈ میں بچوں اور نوجوانوں کے امور کی وزیر نتالی ڈون نے کہا کہ ’بچوں اور نوجوانوں کو جنسی استحصال اور بدسلوکی سے محفوظ رکھنا سکاٹش حکومت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہم ان سنگین مسائل کے بارے میں اپنے علم اور ردعمل کو بہتر بنانے کے لیے اہم شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہوئے مل کر کام کر رہے ہیں۔

’یہ عالمی مسائل ہیں جن کے عالمی حل کی ضرورت ہے اور میں عالمی سطح پر معلومات جمع کرنے کے چائلڈ لائٹ کے انتہائی ضروری کام کا خیرمقدم کرتی ہوں تاکہ بچوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں مدد مل سکے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ