غزہ کی پٹی پر واقع شہر رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ پر اسرائیل کے حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کا موقف بدلتا رہا ہے، لیکن غزہ کے شہر رفح میں بے گھر فلسطینیوں کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری کے بعد امریکی صدر کو سخت موقف اختیار کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
اس حملے میں 45 افراد کی موت پر عالمی سطح پر غم و غصے کے باوجود وائٹ ہاؤس نے منگل کو اصرار کیا کہ اسے یقین نہیں کہ اسرائیل نے وہ بڑا آپریشن شروع کر دیا ہے جس کے بارے میں بائیڈن نے خبردار کیا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان، جان کربی نے کہا کہ بائیڈن مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور وہ اپنے اہم اتحادی اسرائیل کی جانب سے فوجی کارروائی کے متعلق ’معیار تبدیل‘ نہیں کر رہے۔
لیکن صدر بائیڈن کو غزہ کے معاملے پر اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مشکل توازن قائم کرنا پڑ رہا ہے، بالخصوص ایک ایسے سال میں جب یہ 81 سالہ ڈیموکریٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مقابلے میں مصروف ہیں۔
سوفان گروپ میں تحقیق کے ڈائریکٹر کولن کلارک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بائیڈن رفح کے خلاف سخت نظر آنا چاہتے ہیں، اور انہوں نے (اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن الیکشن کے سال میں، ان کا مؤقف غیر واضح ہوتا جا رہا ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ وہ ہونے والے واقعات کے رد عمل میں کافی حد تک اپنا مؤقف مہارت کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔‘
’رفح میں داخل ہونا‘
اسرائیل کی حمایت پر امریکی کیمپس میں ہونے والے مظاہروں کا سامنا کرنے والے بائیڈن نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ رفح میں ایک بڑے فوجی آپریشن کے لیے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہیں کریں گے اور انہوں نے بموں کی ایک کھیپ روک دی تھی۔
اس کے باوجود انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ اسرائیل نے فضائی حملے تیز کر دیے ہیں اور منگل تک ٹینکوں کو وسطی رفح میں لے جایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سب کے باوجود وائٹ ہاؤس نے زیادہ تر اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ حملہ کیا ہے اور کیا نہیں۔
قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’کوئی ریاضیاتی فارمولا‘ نہیں ہے اور ’ہم یہ دیکھنے جا رہے ہیں کہ آیا بہت زیادہ اموات اور تباہی ہوئی ہے یا نہیں۔‘
منگل کو وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھی جان کربی کو اسرائیلی حملے پر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں آگ بھڑک اٹھی جس میں بہت سے لوگ جل کر جان سے گئے۔
کربی نے کہا کہ یہ اموات ’دل دہلا دینے والی‘ اور ’ہولناک‘ ہیں لیکن انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے انہیں رفح میں داخل ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم نے فوجیوں کے بڑے گروپوں کو منظم طریقے سے ایک ساتھ کئی جگہوں پر حملہ کرنے کے لیے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘
لیکن بین الاقوامی سطح پر دباؤ بائیڈن پر بڑھتا جا رہا ہے، جو سات اکتوبر کے بعد سے شدید اختلافات کے باوجود نتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یہ سوالات بڑھ رہے ہیں کہ امریکہ رفح پر اسرائیلی حملے کو کب تک برداشت کر سکتا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت انصاف نے، جس میں امریکہ اور اسرائیل دونوں رکن ہیں، اسے روکنے کا حکم دیا ہے۔
’توازن قائم کرنے کی کوشش‘
اندرون ملک بائیڈن پر سیاسی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کے لیے ان کی حمایت کے خلاف امریکہ بھر کی یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے بہت سے لوگ بھی ان کے موقف کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تاہم ریپبلکن ارکان نے بائیڈن کو اسرائیل کے لیے ان کی کمزور حمایت پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے نتن یاہو کو کانگریس سے خطاب کی دعوت دی ہے۔
سابق امریکی سفیر اور اب جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر گورڈن گرے نے بتایا کہ ’یہ یقینی طور پر توازن قائم کرنے کا ایک مشکل عمل ہے۔ جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ بظاہر کوشش کر رہی ہے، اس سے صرف ان ووٹروں کو مایوسی ہوگی جو کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کے بارے میں شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ توازن قائم کرنے کی کوشش، جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ کر رہی ہے، کسی نہ کسی طرح صرف ان ووٹروں کو مایوس کرے گی جنہیں اس مسئلے کا شدت سے احساس ہے۔‘
تاہم گورڈن گرے نے کہا کہ ان کے خیال میں بائیڈن کی دہائیوں پرانی اسرائیل کی حمایت کا مطلب ہے کہ وہ اپنا موقف تبدیل نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ ایک نایاب سیاست دان ہیں جو اپنے انتخابی فائدے کے بجائے حقیقی یقین کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘