عمران خان کی جانب سے شیخ مجیب الرحمٰن کی حمایت میں ایکس اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کرنے اور ٹویٹ پر تحریک انصاف کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور عمران خان کے بعد عمر ایوب، رؤف حسن اور تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی کو ایف آئی اے نے طلب کر رکھا ہے۔
دراصل 1971 کے سانحہ کے حوالہ سے شیخ مجیب الرحمٰن کے پراسرار کردار اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش تو مجیب الرحمٰن نے 1962 سے ہی شروع کر دی تھی جب انہوں نے ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمیشن کے کونسلر جنرل کی وساطت سے انڈین وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔
مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد حمود الرحمٰن کمیشن کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے 10 روز بعد 26 دسمبر 1971 کو ہوا جسے اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور عبوری صدر ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے زبردست دباؤ اور مغربی پاکستان میں عوامی بغاوت کے خوف سے بنایا تھا۔
20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان کے استعفے کے بعد صدر بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کو حفاظتی نظربندی کے تحت ایبٹ آباد کے ریسٹ ہاؤس میں نظربند کر دیا تھا۔
حمودالرحمن کمیشن نے یکم فروری 1972 سے کام شروع کر کے 12 جولائی 1972 کو عبوری رپورٹ جمع کرا دی جس میں بتایا گیا کہ حتمی رپورٹ جنگی قیدیوں کے وطن واپسی سے مشروط ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کا سیکرٹریٹ سابقہ مشرقی پاکستان ہاؤس پشاور روڈ میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک حصہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے مختص تھا۔
حتمی رپورٹ 23 اکتوبر 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کی گئی جسے فوری طور پر کلاسیفائیڈ (خفیہ) قرار دیا گیا۔ حمود الرحمٰن کمیشن کے ایک رکن لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس انوارالحق اور سندھ ہائی کورٹ کے جج طفیل عباس رحمٰن تھے جنہوں نے حمود الرحمٰن کی معاونت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رپورٹ کے مندرجات کی ذرائع ابلاغ تک رسائی ممنوع قرار دی گئی تھی، بلکہ حمود الرحمٰن کے قریبی ساتھی جسٹس انوار الحق کے گھر بھی رات کے اندھیرے میں خفیہ پولیس کے ذریعے چھاپے بھی مارے گئے تھے کیونکہ صدر بھٹو کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ حمود الرحمٰن کمیشن نے سقوطِ ڈھاکہ کے سیاسی پہلوؤں پر ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس رپورٹ کے خفیہ پہلوؤں کو پوشیدہ رکھا ہے۔
عوامی دباؤ کے باوجود بھی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سلامتی و بقا کے نام پر رپورٹ منظرِعام پر نہ لانے کا فیصلہ کیا۔
حمود الرحمن کمیشن کا مینڈیٹ انتہائی محدود تھا کہ وہ کیا حالات تھے کہ جن کے باعث مشرقی کمانڈ نے ہتھیار ڈالے؟
حمود الرحمن کمیشن صرف ہتھیار ڈالنے سے منسلک حالات و واقعات کی حد تک تحقیق کرنے کا مجاز تھا، سقوطِ ڈھاکہ کا مکمل جائزہ لینا اس کے دائرہ اختیار میں نہ آتا تھا۔
اس سانحے کے تین اہم فریق ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمٰن اور صدر یحییٰ خان تھے اور حمود الرحمٰن نے بطور چیئرمین کمیشن کے افواجِ پاکستان پر تو الزامات لگائے جب کہ انہوں نے صدر بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کے کردار کے حوالے سے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ سیاست دانوں کے کردار کے بارے میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کا حصہ آج تک انتہائی خفیہ قرار دے کر منظرِعام پر نہیں آنے دیا گیا۔
حمودالرحمٰن نے بطور چیئرمین کے مشرقی پاکستان کے سانحے کی وجوہات جاننے کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان سے چار گھنٹے پر محیط انٹرویو لیا یا ان کا بیان ریکارڈ کرایا۔
جسٹس حمود الرحمن نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے احترام میں ان سے گزارش کی کہ وہ ان کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر آنا چاہتے ہیں تو اس پر ایوب خان نے ان سے ملنے کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن کے سیکرٹریٹ میں آنے پر آمادگی ظاہر کی۔
صدر ایوب خان نے چار گھنٹے تک مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات بتاتے ہوئے ان کو بتایا کہ مشرقی بنگال کی عوام میں علیحدگی کے آثار تو 1948 سے ہی شروع ہو گئے تھے ایوب خان نے تاریخی خط بھی کمیشن کے روبرو پیش کیا جو انہوں نے 1949 میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو مشرقی بنگال میں علیحدگی کے رجحانات کے بارے میں لکھا تھا۔
صدر ایوب خان نے وہ خط جو انتہائی رازداری پر مبنی تھا اور وہ اس وقت مشرقی بنگال کے جی او سی تھے، انہوں نے اپنے ہاتھ سے خط لکھا اور ڈھاکہ یونٹ آفس میں ذاتی طور پر گئے اور خط اپنی موجودگی میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھجوایا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مہم خفیہ طور پر قیامِ پاکستان کے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی۔
حمود الرحمن کی رپورٹ کی 12 جلدیں تھیں، جن میں سے 11 جلدیں جنرل ضیاء الحق کے درو میں تلف کر دی گئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اس رپورٹ کے مندرجات انڈیا میں شائع ہوئے تو پاکستان میں اسے عام کر دیا گیا اور یہ رپورٹ بڑے سائز کے 545 صفحات پر مشتمل تھے۔
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ٹولے پر بھی سر پر سوار رہی۔ کمیشن کی رپورٹ کی تلاش میں وزیراعظم بھٹو کی تیسری اہلیہ حسنہ شیخ کے گھر کی بھی تلاشی کروائی گئی تھی۔
اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے خصوصی حکم کے تحت سپیشل فورسز کے کمانڈو کرنل طارق محمود نے رات کے اندھیرے میں 70 کلفٹن کراچی پر خفیہ آپریشن کرایا گیا تھا اور کمانڈو طارق محمود کھڑکی کے راستے میں سے مسٹر بھٹو کے بیڈروم پہنچے تھے اور گرفتاری کے بہانے ان کے بیڈ روم کی تلاشی لی گئی تھی۔
ان دنوں خبریں گردش کر رہی تھیں کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کی تمام جلدیں ان کے بیڈروم کے بستر کے نیچے سے دستیاب ہو گئی تھیں جو بعد ازاں جنرل ضیاء الحق نے تلف کرا دی تھیں۔ کرنل طارق محمود بعد ازاں بریگیڈیئر بنائے گئے اور 1989 میں بےنظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں قومی تقریب میں فضائی مظاہرہ میں پیراشوٹ نہ کھلنے پر فوت ہو گئے تھے۔
جب جسٹس حمود الرحمٰن سے میری ملاقات جون 1976 میں ہوئی تھی میں نے سقوطِ ڈھاکہ کے حوالہ سے ان کی رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نگرانی میں جو کمیشن بنائے جاتے ہیں وہ حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق رپورٹ تیار کرتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے: سقوطِ ڈھاکہ: پانچ بڑے مغالطے
ان کا کہنا تھا کہ ’سقوطِ ڈھاکہ کے حوالہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے طویل ترین بیان ریکارڈ کرایا تھا، لیکن سابق صدر ایوب خان نے انتہائی صاف گوئی سے اپنا چار گھنٹے کا بیان ریکارڈ کرایا اور کمیشن کے دونوں ارکان ان کے صاف گوئی سے متاثر ہوئے تھے۔‘
میں نے اسی رپورٹ کے بارے میں جسٹس انوار الحق سے اس وقت معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جب وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس تھے، تو انہوں نے بتایا، ’سقوطِ ڈھاکہ بھٹو کی ہوسِ اقتدار کی وجہ سے ہوا تھا اور حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے جو حقائق آئے تھے اس سے مجھے ذوالفقار علی بھٹو سے شدید نفرت ہو گئی تھی۔ جہاں تک سرنڈر کا سوال سامنے آتا ہے تو یقینا یہ فوجی شکست تھی۔‘
شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کے غدار تھے، انہوں نے مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت کرائی اور پاکستان کے حامیوں کا قتل عام کرایا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتل میجر مشرف فارق کی سرگزشت پڑھنے کے لائق ہے جس میں اس نے اعتراف کیا کہ مجیب الرحمٰن نے اندرا گاندھی سے مل کر پاکستان کو توڑا تھا، شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی بنگال کو مغربی بنگال میں ضم کرانا چاہتا تھا جسے ان کے ساتھیوں نے ناکام بنا دیا تھا۔
عمران خان کو مجیب الرحمٰن کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عظیم محب وطن فضل القادر چوہدری، سابق سپیکر قومی اسمبلی اور ان کے صاحبزادگان کی عظیم قربانی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔