ایلون مسک نے برطانیہ میں خانہ جنگی کی پیش گوئی کی، لیکن ایسا ہوا تو نہیں؟ کل شام تک پوری قوم ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران بدترین بدامنی کے لیے تیار تھی۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ بعض لوگوں کو بدنیتی پر مبنی اپنی وجوہات کی بنا پر انتشار، بدامنی، حتیٰ کہ لاشیں گرنے کی امید تھی۔
افواہیں گرم تھیں کہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد ایک سو مظاہرے کریں گے، جن کے جواب میں تقریباً 30 مظاہرے کیے جائیں گے اور پولیس ان دونوں کے درمیان پس کر رہ جائے گی۔
اس صورت حال میں تشدد اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کی توقع کی جا رہی تھی، جیسا کہ ماضی میں ہوچکا ہے۔
ہمیں خدشہ تھا کہ قصبات اور شہر تباہی کا شکار ہو جائیں گے اور ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔ برادریوں کے درمیان تعلقات ختم ہو جائیں گے۔
مسلمان خوف کا شکار ہو جائیں گے، جب کہ مشتعل ہجوم کسی بھی غیر سفید فام کو اٹھا کر اسے تشدد کا نشانہ بنائیں گے، یعنی ہجوم کی حکومت ہو گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا یا اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
درحقیقت، یہ انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کی بہترین انداز میں شکست تھی۔ پرامن انداز میں شکست۔
دائیں بازو کے لوگوں پر وہ لوگ حاوی ہو گئے جو ان کے مؤقف سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے دائیں بازو کے دعوؤں کو بھی لایعنی ثابت کر دیا۔
فسطایئت کے مخالف لوگ بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکلے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو عام طور پر کسی سیاسی مظاہرے کے قریب بھی نہیں جاتے۔
وہ دراصل خود کو مہذب لوگ سمجھتے ہیں جو اسلاموفوبیا اور دوسری نسل پرستی سے دلبرداشتہ ہیں۔ یہ واقعی ایک تاریخی لمحہ تھا۔
برطانیہ وہ نہیں ہے جو ہم نے گذشتہ ہفتے دیکھا۔ معقول، روادار اور جمہوری سوچ رکھنے والے لوگ ثابت قدم رہے۔ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا گیا۔ محصور اور اپنے گھروں اور مساجد کی حفاظت کرنے کی کوشش کرنے والے مسلمانوں نے انتہائی دائیں بازو کے پروپیگنڈا کرنے والوں کو وہ موقع نہیں دیا جو وہ چاہتے تھے۔
انہوں نے برادری کے سمجھ دار رہنماؤں کی بات پر کان دھرا۔ ’انہیں ٹک ٹاک‘ اور دیگر ویڈیوز بنانے کا موقع مت دیں، جنہیں وہ سیاق وسباق سے ہٹ کر پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر سکیں، جس کا مقصد نسل پرست حملہ آوروں اور قانون پر عمل کرنے والے ان لوگوں درمیان جعلی مساوات ظاہر کرنا ہے، جن کی رنگت اور عقائد مختلف ہیں۔
بلا مبالغہ یہ قوم کے لیے قابل فخر لمحہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے دو حصے برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ میں حملوں کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔ سکاٹ لینڈ اور ویلز پر امن رہے اور رات کسی کو بڑا نقصان پہنچے بغیر گزر گئی۔
سچی بات یہ ہے کہ فسطائیوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ زیادہ تر چھوٹے سے گروپ کی شکل میں کسی چوراہے اور یا ہائی سٹریٹ کے کنارے پر الگ تھلگ ہو کر کھڑے رہے اور پولیس ان کی حفاظت کرتی رہی۔ اس دوران بہت سے دوسرے برطانوی شہریوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان پر ظاہر کیا کہ ’ہم اکثریت اور تم اقلیت میں ہو۔‘
تحریروں میں اس بات کو نمایاں کیا گیا کہ ان فسطائیوں میں سے بہت سے لوگ جرائم پیشہ ہیں۔ میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر مارک رولی کے مطابق جن فسطائیوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں 70 فیصد مجرمانہ ریکارڈ کے مالک ہیں۔
رولی کے بقول: ’وہ سڑک پر آنے والے آپ کے عام لوگ نہیں۔ وہ لٹیرے اور مجرم ہیں۔ وہ محب وطن یا مظاہرہ کرنے والے لوگ نہیں اور ان کا محاسبہ کیا جا رہا ہے۔‘
یہ ٹومی رابن سن اور ایلون مسک جیسے لوگوں سمیت اس بات کا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کرنے والے ہر شخص کے لیے ایک بری رات تھی کہ برطانیہ کا کثیر ثقافتی معاشرہ نسلی فسادات کا شکار ہو کر بکھرنے والا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم فساد نہیں چاہتے بلکہ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔
یہ کیسے ہوا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بدامنی، آتش زنی اور لوٹ مار پر دی جانے والی سخت سزائیں کچھ لوگوں کے راستے میں رکاوٹ بنیں۔
شام کا وقت فسادیوں کے لیے تباہی پھیلانے کا معمول کا مثالی وقت نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں باہر نکل کر گلی محلے کی صورت حال کو سنبھالا۔
یہ صورت حال والتھم سٹو کے فضائی مناظر سے ظاہر ہوتی ہے۔ دائیں بازو کے لوگوں کی تعداد ان لوگوں کے مقابلے میں کم ثابت ہوئی جو دائیں بازو کے لوگوں کو روکنا چاہتے تھے۔
عام لوگوں نے دائیں بازو کے اکٹھا ہونے کے مقامات پر قبضہ کر لیا۔ نسل پرستی کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں بچی۔
انتہائی دائیں بازو کے لوگ ان واقعات سے کمزور ہوئے، مضبوط نہیں۔ وہ بے نقاب ہو گئے کہ ان کا مقصد تباہی پھیلانا ہے اور ان کی قیادت عوامی رائے اور تاریخ کی مخالف سمت میں کھڑی ہے۔
ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم میں سامنے آنے والے کچھ بھوتوں کو قابو میں کر لیا گیا ہے اور کچھ زخم اب بھرنے لگے ہیں۔
بدامنی کے آغاز کے بعد سے لوگوں کو پیش آنے والے مسائل اور مشکلات، خاص طور پر برے لوگوں کی جانب، ساؤتھ پورٹ میں لوگوں کی تکلیف سے فائدہ اٹھانے کے پیش نظر اب وقت آ گیا ہے کہ اس تمام صورت حال کو روکا جائے۔
پیغام یہ ہے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ اس صورت حال کو مزید برداشت کرنے پر تیار نہیں۔
© The Independent