ٹرمپ کو ہرانے کے لیے ڈیموکریٹس کے پاس ’سپر پاور‘ ہے

پچھلی دہائیوں کے دوران امریکی سیاست میں خواتین کی صلاحیتں تابناک رہیں لیکن اب تک کوئی خاتون اوول آفس نہیں پہنچ پائیں۔ اگر کملا ہیرس تاریخ رقم کرتی ہیں تو اس کے پیچھے ان کے ساتھ موجود سمجھدار خواتین کی طاقت بھی ہو گی۔

امریکی نائب صدر اور 2024 کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس 22 اگست 2024 کو شکاگو، الینوائے میں یونائیٹڈ سنٹر میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے چوتھے اور آخری دن تقریر کرنے کے لیے اسٹیج پر پہنچ کر ہاتھ ہلا رہی ہیں (رابن بیک / اے ایف پی)

کملا ہیریس اپنی نامزدگی کے لیے ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں فرنچ نیوی بلیو، وضع دار لیکن سٹائلش ٹراؤزر سوٹ اور بلاؤز میں ملبوس تھیں۔

افواہیں بہت زیادہ تھیں کہ وہ اپنی تاریخی نامزدگی کو واضح کرنے کے لیے ’سفریجیٹ وائٹ‘ پہن کر ہلیری کلنٹن کی یاد دلائیں گی لیکن ایک معاون کے طور پر جب میں نے پوچھا کہ کیا ہم ان سے پہلی خاتون صدر بننے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کی توقع کر سکتے ہیں تو کملا کو اس کے لیے اپنی قابلیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

لہٰذا شکاگو میں کملا کا پیغام 2016 کی ہیلری کلنٹن کی ناکام مہم اور ہلیری کی جانب سے ’آگے بڑھنے میں رکاوٹوں‘ والے مقابلوں کا مسلسل حوالہ دینے سے مختلف ہے۔ ہیریس نے عقائد کے اس پہلو کو کم اہمیت دی  یا شاید اس کا حساب لگایا کہ ہمدردی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے سے ہٹ کر امریکی ہمیشہ ان خواتین کے بارے میں گرمجوشی نہیں دکھاتے جو (صنفی رکاوٹوں کے باعث) اپنی جدوجہد کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

کملا ہیرس کی بطور لبرل کیلیفورنین اور حقوق نسواں کی علمبردار شبیہہ کو بدلنے کے لیے ایک محتاط اور نپی تلی تقریر تیار کی گئی تھی جس میں انہیں امریکی خواتین کی نمائندہ، عام فہم، سیدھی بات کرنے والی، امریکہ اور مغرب کی سلامتی کو محفوظ رکھنے والی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا، جسے ٹرمپ اور ان کے نائب وینس کے کیمپ نے انتہائی بائیں بازو اور دوسروں پر نظر رکھنے والی سرگرمی کا رنگ دیا۔

یہ کنونشن خواتین کا ہال آف فیم بھی رہا جہاں ہلیری کلنٹن اور مشیل اوباما نے اپنی تقاریر سے سامعین کا خون گرمایا۔

جب کہ ایک سیشن میں سابق سپیکر نینسی پیلوسی (جنہیں ’سٹیل میگنولیا‘ یا خاتون آہن بھی کہا جاتا ہے) نے کہا کہ بائیڈن کو امیدواری سے ہٹانے کی وکالت کرنا ان کا فرض تھا۔ انہوں نے سامعین کو بتایا کہ ’میں اچھی طرح جانتی تھی کہ میں کیا کر رہی ہوں۔‘

ڈیموکریٹس کا یہ اجتماع خواتین ستاروں سے جگمگا رہا تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارت کی امیدوں کے لیے حتمی چیلنج بھی تھا۔

اگر نومبر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے تو یہ اس میں شامل زیادہ افراد کے لیے ذاتی اور انتہائی پروفیشنل معاملہ ہو گا۔ ہیریس نے اپنے حریف کو ایک ’غیر سنجیدہ‘ شخص کے طور پر بیان کرتے ہوئے نرم لہجے کا انتخاب کیا جن کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں ’سنگین نتائج‘ ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے وکالت کے تجربے کو ان کی سزاؤں اور اخلاقی ناکامیوں پر اثر انداز ہونے میں استعمال کریں گی۔

ہیلری کلنٹن جو اب 2016 میں ٹرمپ کے خلاف اپنی صدارتی مہم کے مقابلے میں زیادہ سرگرم اور نرم مزاج  متکلم ہیں، اب بھی اس شکست کا بدلہ لینے کا سوچ رہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’وہ اب فرار ہو رہا ہے۔‘

اس کنونشن کی فاتح مشیل اوباما رہیں جنہوں نے کاٹ دار الفاظ میں شعلہ بیاں تقریریں کیں۔

وہ اپنے تجربے سے جانتی تھی کہ ٹرمپ ممکنہ طور پر ہیریس کے بارے میں ’بدصورت، زن بیزار، نسل پرستانہ جھوٹ‘ کا سہارا لیں گے۔ لیکن انہوں نے کچھ مذاق بھی کیے۔ تارکین وطن کی جانب سے ’سیاہ فاموں کی ملازمتیں‘ لینے کے بارے میں ٹرمپ کے ایک بیان پر مذاق کرتے ہوئے مشیل نے کہا: ’کون اسے بتائے گا کہ وہ اس وقت (صدارت) جس ملازمت کی تلاش کر رہے ہیں وہ شاید ان سیاہ فاموں میں سے کسی ایک کی ہو۔‘

اپنے شوہر کی دو مدتی صدارت کا یہ حوالہ اس بات کی یاددہانی تھا کہ براک اوباما اب بھی فطری ہردلعزیز ہیں اور وائٹ ہاؤس کے دیگر صدور سے زیادہ، وہ پارٹی کے وفادار کارکنوں میں مشہور ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، یہ صرف مشیل کا ہی لمحہ تھا۔

یہ انداز شان و شوکت بلکہ فخر سے بھرپور تھا، خاص طور پر جب مشیل اوباما آپ کو کچھ کرنے کو کہہ رہی ہیں۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں کو ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے اور زیادہ متحرک ہونے کی ہدایت تھی۔

آج کی امریکی سیاست کی چمک دمک اسی اوباما جوڑے کی وراثت کی مرہون منت ہے جنہوں نے پہلے صدارتی جوڑے کے طور پر سوشل میڈیا کے کردار کو سمجھا اور ڈی جے، ریپرز، فیشن ڈیزائنرز اور کامیڈینز کے ذریعے اس مقبول ثقافت کو سیاست کے ساتھ جوڑنے کا طریقہ دریافت کیا۔

60 سال کی عمر میں مشیل اوباما آرکنساس گرے ہاؤنڈ کی طرح دبلی پتلی ہیں۔ سٹائل میں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ ایک بہت ہی قیمتی برانڈ کے بغیر آستین جمپ سوٹ اور سیاہ پیٹنٹ لیدر کی عمودی پنسل ہیل والے چمکدار سیاہ جمی چوز برانڈڈ جوتوں میں نمودار ہوئیں۔ انہوں نے جاونٹی پلیٹ سٹائل میں بالوں کو باندھا ہوا تھا جس میں ان کی دائرہ نما بالیاں نمایاں تھیں۔ وہ شاید راحت محسوس کر رہی ہیں کہ انہیں دوبارہ جے کریو برانڈ کے پیسٹیلز نہیں پہننے پڑیں گے۔

کنونشن کی پروڈکشن بھی انتہائی شاندار رہی جس میں اوپرا ونفری اور مایا ہیرس سمیت معاون خواتین کاسٹ شامل تھیں جو اپنی بہن کملا ہیرس کی اَن آفیشل مشیر بھی ہیں۔ اکاپیلا کنٹری بینڈ ’دا چکس‘ نے پرانے ٹارچ سانگ واربلرز کی جگہ امریکی قومی ترانہ گایا گاتے ہوئے ہیریس کا تعارف کرایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حقیقی جوش و خروش اس وقت سامنے آئے گا جب کملا ہیرس کا 10 ستمبر کو اپنے پہلے ٹی وی مباحثے میں ٹرمپ سے آمنا سامنا ہو گا۔ یہ سخت اشتعال انگیز ماحول میں جواب دینے کی ہیرس کی صلاحیت کو امتحان ہو گا۔ ہلیری کلنٹن نے ایک بار مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ جب ٹرمپ آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو یہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ آگ کا گولہ ہیں۔‘ لیکن ہیرس کو اس پیشگی علم کا فائدہ ہو گا۔

تاہم ان کے لیے بے لگام اور بے رحم دشمن کے ساتھ براہ راست مقابلے کے چیلنج کو کم سمجھنا غیر دانشمندانہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا ایک تہائی وقت اس مباحثے کی تیاری میں صرف کر رہی ہیں۔ کملا ہیرس کے انداز میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ ان کے پاس ’فرد شناسی‘ جیسے عنصر کی کمی ہے جس نے براک اوباما اور بل کلنٹن کی مدد کی تھی۔ یہ مباحثہ ان کا امتحان ہوگا کہ آیا وہ دباؤ میں پھرتی دکھا سکتی ہیں یا نہیں، جو اب تک ان کی کمزوری رہی ہے۔

لیکن ان کے پاس خواتین کی ایک مضبوط بنیاد موجود ہے جو ان کو سہارا دے سکتی ہیں۔ میں نے ابھی ابھی عراق جنگ میں حصہ لینے والے الینوائے سینیٹر ٹمی ڈک ورتھ کا انٹرویو کیا ہے جنہوں نے فوجی زبان میں جواب دیا کہ ’وہ ان (ٹرمپ) کو دھول چٹا دیں گی۔‘

دنیا کے سب سے بڑے عہدے کے لیے مقابلہ کرنے والی خاتون کو حیران کن چیلنجز کا سامنا ہے جن میں مشکل مہم چلانا اور حب الوطنی پر مبنی امریکی اقدار کا تحفظ شامل ہے (جس کا اظہار سٹیج پر ایک درجن قومی پرچم اور ستاروں اور پٹیوں والی لیپل پن سے ہوا۔)

انہیں سخت رویے جیسے الزام سے بچنے کی ضرورت ہے جس نے ٹرمپ کے ساتھ مقابلے میں ہلیری کلنٹن کو نقصان پہنچایا اور اس کے باوجود خود کو بے خوف ظاہر کرنا ہے۔

رواں ہفتے کے دوران سنائی دینے والے نعرے ’وی آر ناٹ گوئنگ بیک‘ کے ساتھ کملا ہیریس کو امریکیوں کو دکھانا ہوگا کہ وہ انہیں آگے لے جا سکتی ہیں۔

ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن اس بات کی یاددہانی کرتا ہے کہ پچھلی دہائیوں کے دوران امریکی سیاست میں خواتین کی صلاحیتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ کوئی بھی خاتون اوول آفس تک نہیں پہنچ پائیں۔ اگر کملا ہیرس تاریخ رقم کرتی ہیں تو اس کے پیچھے سمجھدار خواتین کی طاقت بھی ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

این میک ایلوائے پولیٹیکو پاور پلے انٹرویو پوڈ کاسٹ کی میزبان ہیں (politico.eu/power-play-podcast)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ