کل مجھے کالج کی ایک دوست کی طرف سے سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی جو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آئی تھیں۔
سالگرہ کی دعوت بہت اچھا لگی لیکن جیسے ہی میں نے دوست کا واٹس ایپ پیغام پڑھا، میری نظر اس سے اوپر سکرین پر موجود وائس نوٹس کی قطار پر جا پڑی۔ یہ تمام آڈیو پیغامات سنے نہیں گئے تھے۔ کچھ دو ماہ پرانے تھے۔
میرے تین دوست مجھے آڈیو پیغامات بھیجتے رہتے ہیں لیکن سیڑھیوں پر پڑا ڈاک ڈھیر کھولنے یا گھر کے لیے لیے گئے قرضے کی تجدید کی طرح یہ وائس نوٹس میرے دماغ میں خلش بنے رہتے ہیں لیکن پھر بھی میں کچھ نہیں کرتی۔
میرے فون میں درجنوں وائس نوٹس پڑے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں سنا۔ جیسے ہی کوئی نیا نوٹ آتا ہے، میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ میں پریشان ہو جاتی ہوں اور فوراً بےچینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں سوچتی ہوں یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ وہ مجھ سے براہ راست بات کیوں نہیں کرنا چاہتے؟
یہ سب دوست بہت پیارے ہیں اور ایسے نہیں لگتا کہ وہ خودغرض ہوں، اور ان کے وائس نوٹس بھی شکر ہے کہ بہت مختصر ہوتے ہیں۔ میرے ڈرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہونی چاہیے لیکن پھر بھی میں ڈرتی ہوں۔
میری پریشانی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میں جواب کیسے دوں؟ یقیناً، ہمیں بھی ویسا ہی جواب دینا چاہیے تو کیا میں بھی وائس نوٹ بھیجوں؟ کبھی نہیں! مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں بوڑھے لوگوں والا رویہ تو اختیار نہیں کر رہی اور پھر میں خود کو سنبھال لیتی ہوں۔
صوتی نوٹس نئی چیز نہیں۔ آئی فونز میں ایک دہائی پہلے یہ فیچر شامل ہوا تھا کہ آپ صرف ایموجی کے ساتھ تحریر کی بجائے چھوٹے آڈیو کلپس بھیج سکتے ہیں۔ واٹس ایپ نے 2013 میں صوتی نوٹس متعارف کروائے۔ ایک اندازے کے مطابق وٹس ایپ کے ذریعے ہر روز سات ارب صوتی نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔ اب، ایک نسل ہے جو صرف صوتی نوٹس کے ذریعے بات کرتی ہے۔
اس لیے میں اپنے بھتیجیوں، بھتیجوں اور دوستوں کے بچوں جن کا تعلق زیادہ نئی نسل کے ساتھ ہے کو پیغام بھیج کر ان سے دریافت کرتی ہوں کیا وہ آڈیو پیغام بھیجتے ہیں اور ان کا کوئی مشورہ ہے؟ جوابات مختلف ہوتے ہیں۔ ’میں ہر وقت آڈیو پیغامات بھیجتا ہوں۔ مجھے اپنے دوستوں کی آواز سن کر اور شخصیت جان کر اچھا لگتا ہے یا ’میں آڈیو پیغام سننے سے انکار کر دیتا ہوں کیونکہ اس سے محض صوتی پیغام بھیجے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘
ایک بھتیجے کا کہنا ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ وائس میسجز بھیجتے ہیں وہ اکثر اپنے بارے میں بہت زیادہ بات کرتے ہیں۔ (’انہیں پوڈکاسٹ شروع کر دینا چاہیے‘)، ایک نوجوان کے مطابق وہ وائس میسجز کو دوگنی رفتار سے سنتے ہیں تاکہ جلدی سے سنا جا سکے۔ ایک اور خاتون کا کہنا ہے کہ میں وائس میسجز صرف اہم معلومات جلدی سے بھیجنے کے لیے استعمال کرتی ہوں لیکن ہمیشہ ’وائس نوٹ ہر معذرت‘ کے الفاظ کے ساتھ آڈیو پیغام شروع کرتی ہوں۔
یہ بات آڈیو پیغام بھیجنے کے معاملے میں کوئی زوردار سفارش نہیں۔ کیا ایسا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ نوجوان تقسیم کر دینے والی اس عادت پر متفق نہیں ہیں۔ ورزش کرنے والی ایک خاتون نے وائس نوٹس کا دفاع کیا۔ (یا جیسا کہ وہ انہیں ’وی اینز‘ کہنے پر اصرار کرتی ہیں۔)۔ ان کا دوست نیویارک میں رہتا ہے اور وہ لوگ انہیں خط کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ہر ہفتے ایک دوسرے کو طویل وی این بھیجتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ اچھا لگتا ہے. لیکن میرے خیال میں میرے ان سنے پیغامات میں سے کوئی بھی ایک جیسا نہیں۔
اس (خاتون) کو سمجھ میں نہیں آتا کہ میں صوتی پیغامات سے کیوں نفرت کرتی ہوں۔ ان کے خیال میں ’یہ فون پر خود بخود جواب دینے کے لیے لگی مشین کے پیغامات کی طرح ہوتے ہیں۔‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔ وہ لوگ میرے ساتھ بات کرنا چاہتے تھے۔ میرے لیے صوتی پیغام چھوڑ دیں۔ میں اسے بخوشی سن لوں گی۔
صوتی پیغامات یکطرفہ بات چیت ہوتی ہے۔ پیغام بھیجنے والا ’سینڈ‘ موڈ پر گیا اور پیغام کی وصولی روک دی۔ اس سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری گھات لگائی گئی۔
ٹھہریے۔ ایک بار میں نے ایک وائس نوٹ سنا جو پانچ منٹ کا تھا۔ ایک دوست نے اپنے خاندان کے بارے میں دلچسپ کہانی سنائی۔ اس مخصوص دن کی تفصیلات، اس کے بعد کی کہانیاں اور مزاحیہ باتیں ایسی تھیں جیسے کوئی سٹینڈ اپ شو ہو۔ مجھے بہت مزہ آیا۔ مگر یہ بار بار نہیں ہوتا۔
میں پھر بھی قائل نہیں ہوئی۔ غیر ضروری وائس میسج سے نمٹنے کے طریقے موجود ہیں۔ دوستوں کے ساتھ قاعدہ بنا لیں کہ وائس نوٹس دو منٹ سے زیادہ لمبے نہیں ہوں گے۔ جب ایک پیغام آئے تو فوراً سن لیا جائے اور جواب میں اوکے کہہ دیں یا کہہ دیں کہ ’میں معذرت چاہتا کہ صوتی پیغام نہیں سن سکتا۔‘ اس طرح دوست آپ کو صوتی پیغام بھیجنا بند کر دیں گے۔
یا پھر وہ کریں جو میں کر رہی ہوں۔ صوتی پیغامات کو ان سنا چھوڑ دیں۔ اس طرح صوتی پیغام بھیجنے والوں کو جلد ہی جواب مل جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent