انڈیا کے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کی نظرثانی کمیٹی نے کنگنا رناوت کی فلم ’ایمرجنسی‘ کو یو/اے سرٹیفکیٹ کے لیے منظوری دے دی ہے، بشرط یہ کہ فلم ساز 13 تبدیلیاں کریں، جن میں کٹوتیاں، شمولیت اور ترامیم شامل ہیں۔
ان میں سے زیادہ تبدیلیاں تر سکھ گروپوں کی جانب سے قابل اعتراض پائے جانے والے مناظر سے متعلق ہیں۔
جمعرات کو سی بی ایف سی نے ممبئی ہائی کورٹ کو مطلع کیا کہ اس کی نظرثانی کمیٹی نے فلم کی ریلیز سے پہلے کچھ کٹوتی کی تجویز دی تھی۔
سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن نے زی انٹرٹینمنٹ کے شریک پروڈیوسر کی درخواست کا جواب دیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ یہ ادارہ فلم کا ’غیر قانونی اور من مانے‘ طریقے سے اجازت نامہ روک رہا ہے۔
اس فلم کی ہدایت کار اور پروڈیوسر انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی رکن پارلیمان کنگنا رناوت ہیں، جو اس فلم میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا کردار نبھا رہی ہیں۔
جب زی انٹرٹینمنٹ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے ہدایات لینے کے لیے وقت مانگا کہ کٹوتی کی جانی چاہیے تو جسٹس بی پی کولابا والا اور جسٹس فردوس پی پونی والا پر مشتمل بینچ نے معاملے کی سماعت پیر 30 ستمبر تک ملتوی کردی۔
سی بی ایف سی کی جانب سے فلم پروڈیوسروں کو لکھے گئے خط کے مطابق نظرثانی کمیٹی نے فلم کے ٹریلر میں سکھ برادری کی تصویر کشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سکھ گروپوں سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بورڈ نے فلم کو یو اے سرٹیفکیٹ دینے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ فلم میں سیاسی تشدد اور بدامنی کی عکاسی کرنے والے مناظر کے ساتھ ساتھ خواتین کے خلاف مظالم کا ہلکا سا حوالہ دیا گیا ہے اور اس لیے کمیٹی نے اسے والدین کی رہنمائی کے ساتھ دیکھنے کے لیے مناسب سمجھا ہے۔
کمیٹی نے جن 13 تبدیلیوں کی سفارش کی ہے ان میں سے چھ تبدیلیوں، جن میں دو سرکردہ سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ’سنت‘ اور ’بھنڈرانوالے‘ کے لفظ پر مشتمل جملے کو حذف کرنا اور غیر سکھوں کو نشانہ بنانے سے متعلق کچھ مناظر اور مکالموں کو ہٹانا شامل ہے۔
اس نے پروڈیوسروں سے یہ بھی کہا کہ وہ ’خالصتان‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مکالمے کو حذف کریں اور سکھوں کی عکاسی کرنے والے کچھ مناظر کو ہٹا دیں۔
بورڈ نے پروڈیوسروں سے مناظر اور مکالموں میں تین تبدیلیاں کرنے کو بھی کہا ہے۔ نظرثانی کمیٹی نے شروع میں ایک انتباہ دینے کی بھی درخواست کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلم ’سچے واقعات سے متاثر‘ واقعات کی ’ڈرامائی پیشکش‘ ہے۔
ہائی کورٹ نے 19 ستمبر کو سی بی ایف سی کو ہدایت دی تھی کہ وہ فلم کی ریلیز پر 25 ستمبر تک فیصلہ کرے، جس میں کہا گیا تھا کہ سرٹیفکیشن میں تاخیر اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں کہا گیا ہے کہ فلم کو ریلیز ہونے میں جتنا زیادہ وقت لگے گا، پروڈیوسروں پر اتنا ہی زیادہ مالی بوجھ پڑے گا۔ عدالت نے سی بی ایف سی سے کہا کہ وہ ایک طرف نہ بیٹھے اور 25 ستمبر تک کسی نہ کسی طرح سے فیصلہ کرے۔
درخواست گزار نے اس سے پہلے سماعت کے دوران ایک ’سیاسی زاویے‘ سے دلیل دی تھی کہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں تاخیر کی وجہ ہریانہ انتخابات ہیں۔
انہوں نے کہا: ’وہ (حکمراں بی جے پی) معاشرے کے ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کے لیے موجودہ رکن پارلیمان (کنگنا رناوت، جو لوک سبھا میں منڈی حلقہ کی نمائندگی کرتی ہیں) کو ناراض کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو کچھ گروہوں کے مطابق سکھ مخالف ہے۔ پھر سکھ مخالف فلم ریلیز کرنے کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ سی بی ایف سی ہوگی، جو ایگزیکٹو ہے، لہٰذا برادری کے کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم آئندہ ہریانہ انتخابات میں حکمراں پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔‘
بینچ نے ریمارکس دیے: ’آپ کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی پارٹی اپنے ہی رکن پارلیمنٹ کے خلاف فیصلہ دے رہی ہے؟ درخواست گزار نے مثبت جواب دیا اور فوری فیصلے کا مطالبہ کیا۔‘
جمعرات کو درخواست کی سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس کولابا والا نے سی بی ایف سی کے وکیل ابھینو چندرچوڑ سے کہا: ’ہمیں کوئی اچھی خبر دیں۔‘ چندرچوڑ نے کہا کہ ’بورڈ نے فیصلہ کیا ہے اور فلم میں کچھ کٹس (ترامیم/ کٹوتیاں) تجویز کی ہیں اور اگر ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو فلم کو ریلیز کیا جاسکتا ہے۔‘
جس پر درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل شرن جگتیانی نے ہدایت لینے کے لیے وقت مانگا تھا کہ آیا فلم میں کٹوتی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
اس سے قبل چار ستمبر کو ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ وہ سکھ گروپوں کی درخواست پر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے حکم کی وجہ سے سی بی ایف سی کو فلم ’ایمرجنسی‘ کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ہدایت دینے سے قاصر ہے۔
کنگنا رناوت اور ان کے شریک پروڈیوسروں کو شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی جانب سے مبینہ طور پر سکھ برادری کے کردار اور تاریخ کو غلط طریقے سے پیش کرنے پر قانونی نوٹس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔