انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پاکستان کی جامعات میں طلبہ کے لیے شروع کیے گئے پروگرام ’انڈی اِن کیمپس‘ کے تحت لاہور کے کنیرڈ کالج فار ویمن میں صحافت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے ایک آگاہی سیشن کا انعقاد کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر اِن چیف بکر عطیانی نے ایک پریزنٹیشن کے ذریعے طلبہ کو بتایا کہ ایک صحافی کو کن حالات میں کس طرح خبر ڈھونڈنی چاہیے اور اس کے بعد اسے کس طرح پیش کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہروں، احتجاج اور جنگ زدہ علاقوں میں کوریج کے دوران کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اور کس طرح ایک صحافی خود کو محفوظ رکھتے ہوئے رپورٹنگ کر سکتا ہے۔
اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ فاطمہ علی بھی موجود تھیں، جنہوں نے خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز اور ان سے نمٹنے کے حوالے سے طلبہ کو اپنے تجربات کی روشنی میں آگاہی دی۔
طالب علموں نے سیمینار کے اختتام پر بکر عطیانی اور فاطمہ علی سے سوال جواب بھی کیے اور انڈپینڈنٹ ردو کی طالب علموں کے لیے انڈی اردو میں انٹرن شپ کی پیش کش کو بھی سراہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیمینار میں موجود طلبہ کے خیال میں صحافیوں کو بڑا چیلنج سوشل میڈیا سے ہو سکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی ریلز بنا کر لوگ راتوں رات شہرت حاصل کر سکتے ہیں اور اس دوڑ میں ہو سکتا ہے کہ ایک صحافی اپنی خبر پر اس طرح سے فوکس نہ کر سکے۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’سیمینار بہت اچھا تھا اور انہوں نے سیکھا کہ انہیں مختلف حالات میں کس طرح کوریج کرنی ہے کیونکہ عموماً جب تعلیم پوری کرکے بچے عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں یہ معلومات فراہم کرنے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں۔‘
طالبہ سارہ شبیر کا کہنا تھا: ’میں آن لائن صحافت کرنا چاہتی ہوں اور آج کے سیمینار میں مجھے یہ ہمت ملی ہے کہ میں ایک خاتون ہو کر بھی اس پیشے کو اپنا سکتی ہوں اور عوام کے لیے بطور صحافی بہت کچھ کر سکتی ہوں۔‘
کنیئرڈ کالج کے ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کی ڈین مشعل اسد خان نے سیمینار کے اختتام پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’صحافیوں کو مختلف چیلنجز درپیش ہیں، جن میں ہراساں کیا جانا اور آزادی اظہارِ رائے کے علاوہ نئی ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، چیٹ جی پی ٹی شامل ہیں۔۔۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اپنے طالب علموں کو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کریں۔‘