لاہور، اسلام آباد موٹر وے پر رواں برس 23 اگست کو بھیرہ انٹرچینج کے قریب تین خواتین سمیت چار افراد کی گاڑی میں موت کے واقعے کی فرانزک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان افراد کی اموات گاڑی میں زہریلی گیس بھرنے کے باعث ہوئی تھی۔
واقعے کے دن جب موٹر وے پولیس نے کئی گھنٹے بعد گاڑی کو رکا ہوا دیکھ کر معائنہ کیا تو ڈرائیور کو بے ہوش پایا جبکہ چار افراد کی سانس رک چکی تھی، جس کے بعد سرگودھا کے تھانہ پھلروان پولیس نے اس معاملے کی تفتیش کرتے ہوئے لاشوں کے نمونے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کو بھجوائے تھے۔
واقعے میں زندہ بچ جانے والے اسی خاندان کے فرد عمر قاسم جو ڈرائیونگ کر رہے تھے، نے پولیس کو بتایا تھا کہ انہوں نے خانقاہ ڈوگراں انٹر چینچ کے قریب ایک بیکری سے پیٹیز کھائے اور جوس پیا تھا، جس کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ شاید یہ اموات ان اشیا کی وجہ سے ہوئی ہیں، لیکن فرانزک لیبارٹری کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق یہ اموات گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس جمع ہونے سے ہوئیں، جس کے بعد پولیس نے اس واقعے کو حادثہ قرار دے دیا ہے۔
سرگودھا پولیس کے ترجمان عابد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’فرانزک رپورٹ کے مطابق چاروں افراد 55 سالہ رومیلہ، 25 سالہ ثمر جن کی دو ماہ بعد شادی تھی، 30 سالہ مہر اور چھ سالہ عون علی کی اموات کاربن مونو آکسائیڈ گیس سے ہوئی اور چاروں افراد کی سانس اسی زہریلی گیس کے سبب بند ہوئی۔
بقول عابد حسین: ’رپورٹ میں بتایا گیا کہ کاربن مونو آکسائیڈ ممکنہ طورپر ایگزاسٹ پائپ سے لیک ہو کر جمع ہوئی اور گاڑی کے اے سی سے بھی گیس جمع ہونے کے امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس تفتیش کے مطابق عمر قاسم نے بیان دیا تھا کہ انہوں نے خانقاہ ڈوگراں انٹر چینچ کے قریب موٹر وے سے نکل کر ایک مقامی بیکری سے کھانے پینے کی اشیا لیں اور وہ استعمال کرنے کے کچھ دیر بعد وہ گاڑی چلا رہے تھے جبکہ باقی سب غنودگی میں تھے۔ اسی دوران سب کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی اور وہ بے ہوش جبکہ دیگر سب کی سانس بند ہوگئی۔‘
فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’گاڑی میں سوار چاروں افراد کی موت کاربن مونو آکسائیڈ کی زیادہ مقدار پھیپھڑوں میں جانے اور گردوں کے متاثر ہونے سے ہوئی۔ ڈرائیور کے جسم میں اس گیس کی مقدار قدرے کم داخل ہوئی جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔ ممکنہ طور پر مرنے والے افراد سوئے ہوئے تھے اور کافی دیر تک ان کی سانس کے ساتھ کاربن مونو آکسائیڈ پھیپھڑوں میں جمع ہوئی اور سانس بند ہوگئی۔‘
متاثرہ خاندان سے اس فرانزک رپورٹ کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس رپورٹ کی تیاری تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ کھلے روڈ پر چلتی ہوئی گاڑی میں زہریلی گیس کیسے بھر سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے انچارج ڈاکٹر ساجد رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گاڑی کے انجن سے جو دھواں نکلتا ہے اس میں کاربن مونو آکسائید شامل ہوتی ہے۔ یہ گیس اے سی کے پائپ سے گاڑی کے اندر داخل ہوسکتی ہے۔ عام طور پر جب گاڑی کا اے سی چل رہا ہو تو ایگزاسٹ بند ہوتا ہے اور ہوا باہر نہیں نکلتی، جس سے یہ گیس اندر جمع ہونے سے گاڑی میں موجود لوگوں کی سانس بند ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کاربن مونو آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے جو انجن کے دھویں میں بڑی مقدار میں شامل ہوتی ہے۔ یہ بند کمرے میں جمع ہوجائے یا گاڑی میں، اگر وہاں موجود لوگ سوئے ہوئے ہیں تو انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں زہریلی گیس جا رہی ہے۔ یہ گیس انجن کے دھویں میں شامل ہوتی ہے، لہذا اے سی کے پائپ میں اگر کوئی خرابی یا لیکج ہے تو اس کے ساتھ یہ گیس اندر جمع ہوسکتی ہے۔‘
بقول ڈاکٹر ساجد: ’کاربن فلورو ایسڈ گیس اے سی میں استعمال ہوتی ہے لیکن اگر اس میں انجن سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ کسی وجہ سے شامل ہوجائے تو یہ کافی خطرناک گیس بن جاتی ہے، جس کے سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جانے سے موت بھی ہوسکتی ہے۔‘
زہریلی گیس کس طرح متاثر کرتی ہے؟
لاہور کے ماہر امراض سانس و پھیپھڑے (پلمونالوجسٹ) ڈاکٹر ملک عرفان کے مطابق: ’کاربن مونو آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے جس کی گاڑیوں کے دھویں میں بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ گاڑی کے اگر شیشے بند ہوں اور ایگزاسٹ بھی آف ہو اور یہ گیس کسی طرح گاڑی کے اندر داخل ہوتی رہے تو انسانی جسم میں مسلسل جمع ہو کر پھیپھڑوں اور پھر حساس اعضا کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سوتے ہوئے اکثر جلدی معلوم نہیں ہوتا کہ سانس کے ذریعے کوئی زہریلی گیس بھی جسم میں داخل ہو رہی ہے، لہذا ناقابل برداشت حد تک گیس جسم میں جانے سے موت واقع ہوسکتی ہے۔‘
ڈاکٹر ملک عرفان کے مطابق: ’اہم بات یہ ہے کہ انجن کے دھویں کا اے سی کے پائپ میں شامل ہونا معمولی بات نہیں ہوتی۔ یہ کسی خرابی کے باعث ہی ممکن ہوتا ہے، جاگتے ہوئے انسانی جسم پر اس کا اثر قدرے کم ہوتا ہے اور سانس لینے میں دشواری پر فوری احتیاط کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ، بے ذائقہ اور بغیر بو والی گیس ہے۔ اس میں سانس لینا مہلک یا طویل مدتی صحت کے مسائل کا سبب ہو سکتا ہے۔کاربن مونو آکسائیڈ زہر کی علامات دیگر بیماریوں سے ملتی جلتی ہو سکتی ہیں، جیسے فوڈ پوائزننگ یا بغیر بخار والا فلو، جو کئی بار موت کا سبب بھی بنتی ہے۔‘
احتیاطی تدابیر
ڈاکٹر ساجد رشید کے مطابق اس زہریلی گیس سے بچنے کے لیے عام طور پر منع کیا جاتا ہے کہ
۔ گاڑیوں کا ایئر کنڈیشنر چلا کر اور تمام دروازے بند کر کے نہ سوئیں کیونکہ لیکج کی صورت میں یہ عمل مہلک ہو سکتا ہے۔
۔ عام حالات میں بھی کاربن مونو آکسائیڈ زہر سے بچنے کے لیے کار کے اخراج کے نظام کو سال میں ایک بار ضرور چیک کروانا چاہیے۔
۔ بند گیراج میں کبھی بھی کار یا ٹرک کو آن نہ کریں، ہمیشہ دروازے کھول دیں تاکہ تازہ ہوا مل سکے۔
۔ اس کے علاوہ گاڑی کو بند گیراج میں سٹارٹ کر کے نہ چھوڑیں یہ بھی مہلک ہو سکتا ہے۔
جنوری 2022 میں مری میں برفباری میں گاڑیاں پھنسنے سے 22 افراد کی اموات کے بعد بھی یہ سوالات اٹھائے گئے تھے کہ شاید بعض افراد سردی کی وجہ سے گاڑیوں کے اندر ہیٹر چلا کر سوئے، جس سے خدشہ ہے کہ کاربن مونو آکسائید گاڑیوں میں جمع ہوئی، لیکن زیادہ افراد کی اموات کی وجہ ناقابل برداشت سردی بتائی گئی تھی۔