صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے شہر ڈیپلو سے سات کلومیٹر مشرق میں ریت کے ٹیلوں پر موجود گاؤں ویڑہی جھپ اونٹوں اور گھوڑوں کے سنگھار کے سامان بنانے کے لیے مشہور ہے۔
دو دہائیاں قبل تو یہ گاؤں اس کام کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس گاؤں میں 30 سے 35 کاریگر یہ کام کرتے تھے مگر اب یہ تعداد کم ہوکر 10 سے 12 رہ گئی ہے۔
اس کام کے کم ہونے کہ وجہ معلوم کرنے پر انڈپینڈنٹ اردو کو جھامن داس نے بتایا جو خود اسی کام سے وابستہ ہیں کہ پہلے اس کام کی بڑی مارکیٹ ہوتی تھی تھرپارکر میں سڑکیں کم تھیں اس لیے لوگ زیاہ تر گھوڑوں اور اونٹوں کا استعمال کرتے تھے وہ ان پر شوق سے خرچ بھی کرتے تھے لیکن جب سے سڑکیں بنیں ہیں تب سے موٹرسائیکل اور گاڑیوں کا استعمال بڑھ گیا ہے اسی وجہ سے یہ کام آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اب یہاں کے کاریگر یہ کام اپنے بچوں کو بھی نہیں سکھا رہے ہیں۔
جھامن داس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ہی کام کم مل رہا ہے تو ہم اپنے بچوں کو یہ کام کیوں سکھائیں گے، اگر ہم یہ کام اپنے بچوں کو سکھائیں گے تو کل ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے اس لیے ہم اپنے بچوں کو مختلف شہروں میں کسی دکان یا گھر کا کام کرنے پر مزدور لگا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ کام زیادہ تر چمڑے سے ہوتا ہے۔ مگر اب یہاں چمڑا ملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
جھامن داس کہتے ہیں کہ ’یہاں پہلے ہماری برادری کے لوگ چمڑا بنانے کا کام کرتے تھے۔ یہاں کے ہر گاؤں میں چھوٹی چھوٹی بھٹیاں ہوا کرتی تھی جہاں ہماری برادری چمڑا بنانے کا سارا عمل کرتی تھی مگر اب تھرپارکر کے ایک دو گاؤں میں یہ کام ہوتا ہے باقی ختم ہو گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جھامن نے بتایا کہ ’ایک گھوڑے کے سنگھار کا معیاری سامان بننے میں تیں سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ اگر اس سے کم معیار کا ہو پھر بھی ایک ماہ سے تو زیادھ وقت لگتا ہے۔‘
اس کام میں خرچہ بھی بہت ہے مگر جھامن بتاتے ہیں کے ہمیں پھر بھی اچھی مزدوری مل جاتی ہے باقی ایک گھوڑے کے سنگھار کا سامان کتنے میں بن سکتا ہے کے سوال کے جواب میں جھامن کا کہنا تھا کے ’یہ تو سامان پر ہے کے آپ کیسا سامان بنوانا چاہتے ہیں۔ ایک لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ تک بن سکتا ہے، چیز اچھی ہوگی تو اس کا دام بھی اچھا ہوگا۔‘
یہ سارا کام چمڑے پر ہوتا ہے۔ اس پر مختلف ڈزائیں بنتی ہیں جھامن داس بتاتے ہیں کہ ہم اس پر پھول پرندے درخت اور بھی بہت سے ڈزئین بناتے ہیں۔
’اس میں ریولار کا پٹا، گائے اور بھیس کے لئے پٹا بھی بناتے ہیں۔ ہمیں گائے کے پٹے کے آرڈر زیادہ ملتے ہیں۔‘
جھامن داس سامان بناکر سندھ میں لگنے والے مختلف میلوں میں بھی جاتے ہیں کیوں کے سندہ کی درگاہوں پر لگنے والے میلوں میں گھوڑوں اور اونٹوں والے بہت زیادہ اس لئے بھی آتے ہیں کہ وہاں پر گھڑ دوڑ اور اونٹ دوڑ کے مقابلےہوتے ہیں۔
’اس کے علاوہ تھرپارکر کی سرحد پر رینجرز اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اس لیے ان کا سارا سامان بھی ہم بناتے ہیں۔‘
جھامن کے ہاتھ کا بنا ہوا سامان ملک سے باہر انڈیا اور دبئی بھی گیا ہےجسے شپمنٹ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔