امریکی قانون سازوں کا خط سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے: پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے 60 امریکی کانگریس مین کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے خط لکھنے کے معاملے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے 60 امریکی کانگریس مین کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے خط لکھنے کے معاملے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بدھ کو صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ سے اس حوالے سے سوال کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا: ’پاکستان اور امریکہ کے درمیان دیرینہ تعاون پر مبنی تعلقات ہیں، پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے، ایسے خطوط پاکستان امریکہ تعلقات اور باہمی احترام کے ساتھ مماثل نہیں ہیں۔‘

امریکی قانون سازوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’ہم آپ (جو بائیڈن) سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امریکہ کا اہم اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے، جن میں سابق وزیراعظم عمران خان بھی شامل ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو محدود کیا جا سکے۔‘

کانگریس مین گریگ کاسر کی سربراہی میں لکھے گئے خط کے مطابق: ’امریکی کانگریس کے متعدد ارکان کا عمران خان کی رہائی کے لیے یہ اس طرح کا پہلا اجتماعی مطالبہ ہے، جو طویل عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کے ناقد رہے ہیں اور ان کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔‘

عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں جہاں انہیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔

اس سے قبل جولائی 2024 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کی قید ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ ہے۔

’امید ہے پاکستان کو جلد برکس کی رکنیت مل جائے گی‘

پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے توقع ظاہر کی کہ جلد ہی پاکستان کو پانچ ممالک پر مشتمل بین الحکومتی تنظیم برکس کی رکنیت مل جائے گی۔

برکس کا اجلاس روس کے شہر کازان میں 22 سے 24 اکتوبر تک منعقد ہو رہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا: ’پاکستان نے برکس کی رکنیت کے لیے درخواست دے رکھی ہے، امید کرتے ہیں کہ برکس پاکستان کو جلد رکنیت دے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’برکس فورم میں پاکستان کو دعوت نہیں دی گئی تھی اس لیے پاکستان برکس کے اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔‘

گذشتہ ماہ ستمبر میں روس کے نائب وزیر اعظم الیکسی نے دورہ پاکستان کے دوران برکس میں پاکستان کی رکنیت کی حمایت بھی کی تھی۔

روس کے نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچک نے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سے باضابطہ گفتگو کی تھی اور کہا تھا کہ ماسکو برکس میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کرے گا۔

برکس ابھرتی ہوئی معیشت کے ممالک پر مشتمل گروپ 2009 میں وجود میں آیا تھا جس کے پانچ بنیادی رکن ہیں جن میں برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں جبکہ 26 مبصر ممالک ہیں۔

پاکستان سعودی عرب سمیت کچھ ممالک نے رکینت کے لیے درخواست بھی دے رکھی ہے۔

’عافیہ صدیقی کے معاملے پر رابطے میں ہیں‘

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزیراعظم کے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھنے کے معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کو خط لکھا ہے، جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے سازگار معاملات کی درخواست کی گئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور محکمہ قانون و انصاف کے ساتھ رابطے میں ہے، امریکہ میں پاکستانی مشن عافیہ صدیقی کے خاندان اور ان کے قانونی ٹیم کے ساتھ رابطے میں ہے۔‘

انڈین ٹیم پاکستان آئے گی؟

اگلے سال مارچ میں پاکستان میں کرکٹ چیمپیئنز ٹرافی منعقد ہونی ہے تو کیا اںڈین کرکٹ ٹیم کے پاکستان آنے کے لیے دونوں ملکوں میں بات چیت جاری ہے یا اس کا امکان ہے؟ اس سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ ’اس کی تفصیلات پاکستان کرکٹ بورڈ سے لے سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ سیاست اور سپورٹس کو مکس نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان چیمپیینز ٹرافی کی میزبانی کرے گا اور امید ہے کہ تمام ممالک اس میں شرکت کریں گے۔‘

بریفنگ کے دوران اسرائیل کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’اسرائیلی قابض افواج استثنیٰ کے ساتھ غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم میں ملوث ہیں، گنجان آباد علاقوں اور بنیادی ضروریات کو غیر اعلانیہ نشانہ بنانا جنگی جرائم ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان لبنان میں اقوام متحدہ امن دستوں کو نشانہ بنانے کی مذمت اور فوری طور پر اقوام متحدہ امن دستوں کے خلاف کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان