رواں ماہ پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے ایک دل دہلا دینے والا واقعہ رپورٹ ہوا جس میں ساس جو کہ سگی خالہ بھی تھیں نے اپنی ’بہو کو قتل‘ کر کے اس کے ’ٹکڑے نالے‘ میں بہا دیے۔
یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں بلکہ ایسے اور اس سے ملتے جلتے واقعات جن میں خواتین کو کسی بھی طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پورا سال ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
آج سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمیوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ ایک عالمی مہم ہے جس کی قیادت ہر سال اقوام متحدہ کی خواتین کرتی ہیں۔
اس سال کی تھیم، ’خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے سرمایہ کاری‘ ہے، جس کا مقصد ہر ملک اور ثقافت میں ان کے خلاف تشدد اور جبر کو ختم کرنا ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے اور ہم کس حد تک اس میں کامیاب ہو سکے ہیں اور خواتین اور بچیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو کس طرح سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایسے لوگوں سے بات کی جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔
بشریٰ خالق کا تعلق ایک این جی او ’وائز(WISE)‘ سے ہے جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔
بشریٰ خالق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی بڑی بڑی اقسام ہیں ان میں ایک گھریلو تشدد ہے، ریپ، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادیاں بھی اسی میں آتا ہے اور یہ تمام تر اقسام کا تشدد یہاں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
’ہمارے پاس ان تشدد کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں جبکہ ان کو روکنے کے لیے سول سوسائٹی متحرک ہو کر کام کر رہی ہے لیکن پھر بھی اس کی شدت اور رپورٹ ہونے والے کیسسز کی تعداد شرمناک ہے۔‘
بشریٰ خالق کا مزید کہنا تھا کہ ورلڈ اکنامک فارم کی جینڈر گیپ انڈکس کی اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کا 146 ممالک میں سے 145 واں نمبر ہے۔
’یہ ایسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں عورتوں کا سوشل سٹیٹس ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے جب کسی فرد یا جنس کا سوشل سٹیٹس اتنا کمزور ہو گا کہ اس کے پاس کوئی معاشی خود مختاری نہیں ہے، اپنی صحت، تعلیم، فیصلہ سازی میں شمولیت بہت کم ہے، ایسے میں وہ پورا گروہ کمزور ہو جاتا ہے اور یہی کمزوری ہمیں اپنی ذاتی اور گھریلو سطح پر بھی دکھائی دیتی ہے، عوامی جگہوں اور کام کرنے والی جگہوں پر بھی دکھائی دیتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا جو قوانین اچھے یا بہتر بنے ہیں ان پر عملدرآمد پر بھی سوال اٹھتے ہیں اور دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ سزا ملنے کی شرح بہت کم ہے جس کی اپنی وجوہات ہیں کہ قانون بنا لیا لیکن رولز آف بزنس نہیں بنے تو اس پر عملدرآمد کے لیے فریم ورک ہی موجود نہیں ہے اور اگر کہیں موجود بھی ہے اور ہو بھی رہا ہے تو اس میں بھی مجرم کے لیے بہت سے خلا ہیں اور متاثر ہونے والے کو نہ صرف ’وکٹم بلیمنگ کا سامنا‘ ہے بلکہ اپنے لیے انصاف لینے میں بھی ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بشریٰ نے بتایا کہ پنجاب کمشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی رپورٹ کہتی ہے کہ پنجاب کے اندر خواتین پر تشدد میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں قائم ورچول پولیس سٹیشن نے صرف پانچ ماہ کے اندر ایک لاکھ 97 ہزار سے زائد شکایات موصول کی ہیں۔
’اب جہاں اس طرح کی علامات موجود ہوں تو آپ وہاں کے لوگوں کی ذہنیت کا اندازہ کر سکتے ہیں وہ تشدد کو کس حد تک معمول کی بات سمجھتے ہیں یا نارملائز کر چکے ہیں اور ہمارے ملک کا تو یہ المیہ ہے کہ ایک طرف ہم قوانین کے ذریعے تشدد کو جرم بھی قرار دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف معاشرے میں یہ ایک ایسی روایت بن گئی ہے جس کو ہم سب نے internalized کر لیا ہے اور ایسے واقعات بہت زیادہ ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کے ماحول کے اندر خواتین کی تحاریک، سول سوسائٹی اور ترقدی پسند افراد، سب مل کر اس پر سارا سال بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے ہمارے یہی مطالبے ہوں گے کہ عورتوں پر تشدد کو ایک سنجیدہ جرم کے طور پر لینا چاہیے۔‘
’میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ پولیس ہو، پراسی کیوشن یا وکلا یا لوئر جوڈیشری کی ٹریننگ کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں جو ذہنیت ہمارے معاشرے میں موجود ہے وہی ذہنیت ہمارے اداروں میں بھی جاتی ہے وہاں کی پالیسیز اور وژن بناتا ہے اور جب عملدرآمد کی بات آتی ہے تو یہی ذہنیت آڑے آتی ہے۔‘
آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن کی سی او او درشہوار کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کا بہت گہرا تعلق ہمارے سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہے کیونکہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوتا تب تک آپ کے ادارے غیر سنجیدہ طریقے سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’تشدد کی مختلف اقسام ہیں جن میں گھریلو تشدد شامل ہے، زبردستی شادی، تیزاب گردی، جنسی اتحصال اور سب سے بڑھ کر کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کیا جانا بھی بڑھ چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں صنفی امتیاز کی سب سے بڑی وجہ ہماری ذہنیت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ عورت کا معاشی طور پر خود مختار نہ ہونا بھی خواتین کے خلاف تشدد کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس قوانین موجود ہیں جن میں پرٹیکشن آف ویمن ایکٹ ہے، ڈومیسٹک وائلنس پریوینشن، ایسڈ کنٹرول کے قوانین بھی موجود ہیں اور سب سے بڑا ہراسمنٹ آف وینم ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 ہے وہ بھی خواتین کے لیے بنے قوانین میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
’لیکن بدقسمتی سے چیلنجز یہی سامنے آرہے ہیں کہ جب تک خواتین کے بنیادہ حقوق جس میں تعلیم صحت اور معاشی حقوق شامل ہیں ان سے انہیں دور رکھنا عورتوں کے خلاف تشدد کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہی اس کے روک تھام کا راستہ بھی ہے کہ اگر آپ خواتین کے بنیادی حقوق پورے ہونے دیں اور انہیں ان تک رسائی دیں تو انہیں اپنے خلاف تشدد سے بچایا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا کیونکہ کیسسز میں اصاف ملنے میں کتنا وقت لگ جاتا ہے ایک فیملی کیس کس طرح ایک کرمنل کیس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر اس کی ضروریات اور ریٹ بڑھ جاتا ہے اور ایک خاتون جو معاشی طور پر مستحکم ہے وہ دو چار بچے ساتھ لیے عدالتوں میں دھکے کھاتی ہے اس کے لیے نہ عدالتوں میں بیٹھنے کی سہولت ہے نہ کوئی ون ونڈو آپریشن موجود ہے، یہ سب عنصر انصاف لینے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیسسز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن کتنے کیس میچور ہوتے ہیں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اس وقت 12 ملین سے زیادہ ہوم بیسڈ ورکرز سوشل سکیورٹی کے نظام سے باہر ہیں۔ آٹھ ملین سے زیادہ ڈومیسٹک ورکر باہر ہے تقریباً چھ ملین سے زیادہ بچیاں سکولوں سے باہر ہیں یہ بھی تشدد کی ہی اقسام ہیں اور جتنی خواتین اپنے حقوق سے باہر ہیں میرے خیال میں ہمیں یہ تمام ڈیٹا دٓکھائی دے رہا ہے اور ہمیں نظر آرہا ہے کہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
'تعلیم، صحت اور معاشی خودمختاری ہی خواتین کے خلاف تشددکو روکنے کا ذریعہ ہے ہم گارنٹی نہیں کر سکتے لیکن ہم انہیں سینسٹائز اسی طریقے سے کریں گے جب وہ اپنے حقوق کو استعمال کریں گی۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سدرہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’16 روزہ مہم ایک یاددہانی ہے کہ پورا سال ایسے ممالک جنہوں نے سیٹو کنوینشن پر دستخط کیے اور اپنی ریاست کی طرف سے یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنے ملک میں ایسی پالیسیسز اور ایسے قوانین لے کر آئیں گے جس میں صنفی تشدد کے حوالے سے کام کیا جائے گا اور ایسے قوانین جس میں صنفی تشدد کو ختم کرنے کے میکنزمز ہوں اور صنفی تشدد کا شکار ہونے والوں کی فوری مدد کی جا سکے۔‘
’یہ وقت آپس میں بیٹھ کر یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز جس کا ہدف 2030 میں ختم ہو جائے گا۔ اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں ہم اس میں کتنے سنجیدہ ہیں اور حکومتیں اس حوالے سے کس حد تک کام کر رہی ہیں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہماری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس انتظار میں ہے کہ ریاست یا ادارے مل کر قوانین کی عملداری اور پاسداری پر کام کریں تو اس حوالے سے ہم سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور اپنا عزم دکھانا ہوگا۔‘
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق جسمانی اور جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور جبری یا کم عمری کی شادیاں پاکستان کو صنفی امتیاز کے لیے بدترین ممالک میں سے ایک بناتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 146 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 145 ہے، جو افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔