اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ’ہر ممکن‘ کوشش کرے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ان دو ملکوں کے درمیان ایک بار پھر لفظی جنگ ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب ایران جمعے کو یورپی حکومتوں کے ساتھ اہم جوہری مذاکرات کی تیاری کر رہا ہے۔
نتن یاہو نے اسرائیلی نشریاتی ادارے چینل 14 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں اسے جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا، میں وہ تمام وسائل استعمال کروں گا جو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘
اسرائیل خطے کی واحد، اگرچہ غیر اعلانیہ، جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاست ہے۔ اس نے طویل عرصے سے اپنی اولین دفاعی ترجیح یہ بنا رکھی ہے کہ کسی بھی حریف کو اپنے برابر آنے سے روکا جائے۔
نتن یاہو نے منگل کو کہا تھا کہ لبنان میں نافذ ہونے والی جنگ بندی سے اسرائیل کو ایران پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔
ایران نے حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ایک ایرانی جنرل کی موت کا بدلہ لینے کے لیے گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل پر دو میزائل حملے کیے تھے۔
اسرائیل نے دونوں بار ایران پر محدود حملوں کے ساتھ جواب دیا، اور حال ہی میں 26 اکتوبر کو متعدد فوجی تنصیبات پر بم باری کی تھی۔
پچھلے ہفتے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی تنقید پر تہران نے سخت ردعمل دیا، لیکن اس کے بعد سے ایرانی حکام نے دوسروں کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اشارہ دیا ہے، خاص طور پر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی سے پہلے۔
ٹرمپ کی سابقہ انتظامیہ نے ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی اپنائی تھی۔
ایران پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حق پر زور دیتا ہے لیکن آئی اے ای اے کے مطابق وہ واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں ہیں لیکن 60 فیصد یورینیم افزودہ کرتا ہے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ایران کے مذاکرات کے موقے پر گارڈین اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر خارجہ عباس اراغچی نے متنبہ کیا کہ پابندیوں کے خاتمے جیسے وعدوں پر پورا نہ اترنے پر تہران میں مایوسی اس بحث کو ہوا دے رہی ہے کہ آیا ایران کو اپنی جوہری پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے یا نہیں۔
انہوں نے برطانوی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فی الحال ہمارا 60 فیصد سے آگے بڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس وقت ہمارا عزم یہی ہے۔‘
تاہم، انہوں نے مزید کہا، ’یہ بحث ایران میں چل رہی ہے، اور زیادہ تر اشرافیہ کے درمیان۔۔۔ کیا ہمیں اپنے جوہری نظریے کو تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ اب تک یہ ’عملی طور پر ناکافی‘ ثابت ہوا ہے۔
تہران اور بڑی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کا مقصد ایران کو اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے مغربی پابندیوں سے نجات دلانا تھا تاکہ اسے ہتھیاروں کی صلاحیت تیار کرنے سے روکا جا سکے۔
تہران اس طرح کے کسی بھی عزائم کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جن کے پاس ایران کی فیصلہ سازی کا حتمی اختیار ہے، نے ایک مذہبی فرمان یا فتویٰ جاری کیا ہے جس میں جوہری ہتھیاروں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تہران کی جانب سے مذمت کے فوری بعد تین یورپی حکومتوں کے ساتھ بیٹھنے پر آمادگی ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے چند ہفتے قبل سامنے آئی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنے پر توجہ مرکوز کی تھی کیونکہ ان کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
امریکی انخلا کے جواب میں تہران نے معاہدے پر عمل درآمد کم کر دیا اور یورینیم کی افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھا دی جو جوہری بم کے لیے درکار 90 فیصد کے قریب ہے۔
2015 کے معاہدے کے تحت ، جو اکتوبر 2025 میں ختم ہو جائے گا- ایران کی افزودگی کی حد 3.67 فیصد مقرر کی گئی تھی۔
ایرانی سفارت کار ماجد تخت روانچی، جو اراغچی کے سیاسی نائب کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، جمعے کو ہونے والے مذاکرات میں ایران کی نمائندگی کریں گے۔
گذشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں جوہری امور پر تعاون نہ کرنے پر ایران کی مذمت کی گئی تھی۔
ایران نے اس اقدام کو ’سیاسی محرکات‘ قرار دیا اور اس کے جواب میں افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بڑھانے کے لیے ’نئے جدید سینٹری فیوجز‘ کے اجرا کا اعلان کیا۔
سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ شیرمحمدی کے مطابق تہران کے لیے جمعے کو ہونے والے مذاکرات کا مقصد ’دوہری تباہی‘ جیسی صورت حال سے بچنا ہے، جس میں اسے ٹرمپ اور یورپی حکومتوں کی جانب سے نئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کے لیے فوجی امداد کی پیشکش کے الزامات کی وجہ سے یورپی حکومتوں میں ایران کی حمایت میں کمی آئی ہے۔
ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وہ یورپ کے ساتھ تعلقات بہتر کرے گا جبکہ اس نے مضبوط موقف بھی برقرار رکھا ہے۔