شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب بدنام زمانہ صیدنایا جیل میں سالہا سال سے قید افراد جب رواں ہفتے منظر عام پر آئے توان میں سے ہر ایک کے پاس دل دہلا دینے والی داستان تھی۔
13 سالہ خانہ جنگی کے بعد آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جب پورے شام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تو آخرکار مظالم کی علامت بننے والی صيدنايا جیل کا کنٹرول عبوری حکومت کے ہاتھوں میں آ گیا۔
بشار الاسد کی معزولی کے بعد پیر کو ہزاروں شامی اس آس پر صیدنایا جیل کے دروازے پر پہنچ گئے کہ شاید دہائیوں سے غائب ان کے پیاروں سے متعلق انہیں کوئی حوصلہ افزا خبر ملے۔ لیکن برسوں تک قید رہنے والے افراد میں سے ہر کہانی دردناک تھی کیوںکہ ان میں بہت سوں نے برسوں تک سورج کی کرنیں تک نہیں دیکھی تھیں۔
صیدنایا جیل مایوسی و خوف کی علامت
اپنے قیام کے بعد صيدنايا جیل مایوسی کا ایک بلیک ہول رہا ہے، جہاں سیاسی قیدیوں، کارکنوں اور حکومت کے ناقدین کو حراست میں رکھا جاتا تھا۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور پھانسی تک دی جاتی تھی۔
بشار الاسد کے والد حافظ حافظ الاسد کے دور حکومت میں 1980 کی دہائی میں بنائی گئی اس جیل کی ابتدا تو ایک فوجی قید خانے کے طور پر ہوئی لیکن جلد ہی ایک ایسی جگہ بن گئی، جہاں حکومت مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے اسے ’انسانی ذبح خانہ‘ قرار دیا ہے۔ یہ نام ان سرگرمیوں کی عکاسی کرتا ہے، جو بہت بڑی سطح پر تشدد اور سزائے موت کے عمل سے جڑا ہوا ہے۔
بدسلوکی کی دردناک داستانیں
سابق قیدی اس جیل کی دیواروں کے اندر بدسلوکی کی دردناک داستانیں بیان کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کام کرنے والی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ قیدیوں کی شیئر کی جانے والی شہادتوں میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح قیدیوں کو مارا پیٹا گیا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں زخموں اور بیماریوں سے مرنے کے لیے گندگی اور زیادہ بھیڑ والے سیلز میں چھوڑ دیا گیا۔
کئی کو جھوٹے مقدمات، جو صرف منٹوں تک جاری رہے، کے بعد بڑے پیمانے پر پھانسی دی گئی۔
ایمنسٹی کے اندازوں کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیان 13 ہزار افراد کو اس جیل میں سزائے موت دی گئی۔ تشدد کے طریقے میں قیدیوں سے مار پیٹ، چاقو زنی، بجلی کے جھٹکے اور بھوک شامل تھے۔
اس سے قبل امریکہ اسد حکومت پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے صیدنایا میں ایک شمشان گھاٹ کا استعمال کرتی رہی ہے۔
گندی کوٹھریوں سے رینگتے ہوئے نکلنے والے قیدی
گذشتہ اتوار (آٹھ دسمبر) کو حزب اختلاف کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی قیادت میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد حیات تحریر الشام نے صیدنایا کے دروازے زبردستی کھول دیے۔
جس کے بعد ہزاروں قیدی جیل سے باہر نکل آئے، جن میں سے کچھ برسوں کی بدسلوکی کے بعد بمشکل رینگنے کے قابل ہو سکے۔ آن لائن وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خواتین، بچے اور بوڑھے قیدی گندی کوٹھریوں سے باہر نکل رہے ہیں اور ان کے چہرے ان مظالم کی گواہی دے رہے تھے جو دوران قید ان پر ڈھائے گئے۔
ایک ویڈیو میں سینکڑوں خواتین کو گندی کوٹھڑیوں سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جن میں ایک تین سالہ بچہ اور سینکڑوں نوعمر لڑکیاں شامل تھیں۔
رہائی پانے والے قیدیوں میں شامی فضائیہ کے سابق پائلٹ راغید الطاری بھی شامل تھے، جنہیں 1982 کے حما قتل عام کے دوران عام شہریوں پر بمباری کرنے سے انکار کرنے پر 43 سال قید میں رکھا گیا تھا۔ الطاری کے زندہ بچ جانے نے ان لوگوں کو بھی حیران کر دیا جو صیدنایا کی خوفناک تاریخ سے آشنا ہیں۔
آن لائن گردش کرنے والی ایک اور ویڈیو میں ایک معمر خاتون کو خستہ حال سیل میں دکھایا گیا۔ یہ نامعلوم خاتون صرف ہنسنے اور باغیوں کی بتائی ہوئی باتوں کو دہرانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں کہا کہ ’حکومت گر گئی، حکومت گر گئی، حکومت گر گئی۔‘
ایسا لگتا ہے کہ ان کی طرح، بے شمار قیدی اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے جو رہا ہونے کے بعد فوری طور پر اپنے بچوں کی قبروں پر گیا، جنہیں مبینہ طور پر حکومت نے مار دیا تھا۔
بہت سے شامیوں کے لیے صیدنایا کا سقوط تلخ رہا ہے۔ ہزاروں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان خاندان اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں جواب چاہتے ہیں۔
وائٹ ہیلمٹس کے نام سے مشہور شامی شہری دفاع کے رضاکاروں نے نقشوں اور سراغ رساں کتوں کی مدد سے جیل کی پوشیدہ کوٹھڑیوں اور زیر زمین کمروں کو تلاش کیا۔
صیدنایا کی عمارتیں اسد حکومت کے منظم ظلم کی کہانیاں پیش کرتی ہیں۔ نگرانی کے کمرے جہاں دیوار پر مانیٹرز نصب تھے، گارڈز کو قیدیوں پر ہر وقت نظر رکھنے کی سہولت دیتے تھے۔
جیل سے تشدد کا سامان بشمول پھانسی والی رسیاں اور لاشوں کو کچلنے کے آلات وافر مقدار میں ملے۔
جیل کے ’ریڈ ونگ‘ میں سیاسی قیدیوں کو رکھا گیا تھا، جنہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ انہیں پانی سے محروم رکھا گیا، بے ہوش ہونے تک مارا گیا، اور اپنے سیلز میں رفع حاجت پوری کرنے پر مجبور کیا گیا۔
قیدیوں کو اکثر تشدد کے دوران بھی شور مچانے سے منع کیا جاتا تھا۔ ہر صبح محافظ لاشوں کو بے نشان قبروں میں تدفین کے لیے جمع کرتے تھے اور موت کی وجوہات میں ’ہارٹ فیل‘ یا ’سانس کے مسائل‘ لکھتے تھے۔
اگرچہ اس جیل اور اس سے جڑی کہانیوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے البتہ 2011 کے بعد سے اس جیل کے کردار اور یہاں کی خوفناک کہانیوں میں اضافہ ہوا، جب مظاہرین، صحافیوں، امدادی کارکنوں اور طالب علموں کو اجتماعی طور پر حراست میں لیا گیا، جن میں سے بہت سے دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی شواہد کے باوجود بشار الاسد اپنے دور میں جیل میں بدسلوکی کے الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہے اور انہوں نے 2017 میں یاہو نیوز سے بات کرتے ہوئے، ایمنسٹی کی رپورٹ پر ردعمل میں کہا تھا، ’آپ آج کل کچھ بھی جعلی بنا سکتے ہیں۔ یہ جعلی خبروں کا دور ہے۔‘
صیدنایا شام میں واحد سرکاری جیل نہیں ہے، جہاں اس طرح کی زیادتیوں کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں متعدد ایسی عمارات موجود ہیں، جن میں میزہ ملٹری جیل، ٹیڈمور اور فریح فلاستین شامل ہیں، جہاں سے مزید ہولناکیوں کے شواہد سامنے آنے کا امکان ہے۔
اب چیلنج ثبوتوں کو محفوظ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صیدنایا کے مجرم مقدمے کا سامنا کریں۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور دیگر تنظیموں نے حزب اختلاف اور عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جیل سے متعلق ریکارڈ کو محفوظ بنائیں، مزید تباہی کو روکیں۔ تاہم، صیدنایا میں لوٹ مار اور افراتفری نے ان کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
چونکہ بشار الاسد اور ان کے ساتھیوں کو روس میں پناہ دے دی گئی ہے، تو یہ ممکن نہیں لگتا کہ معزول صدر اور ان کی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر افراد کے خلاف صیدنایا میں ہونے والے جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
اگرچہ انصاف کا راستہ طویل ہو سکتا ہے، لیکن صیدنایا کی آزادی ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ زندہ بچ جانے والوں اور خاندانوں کے لیے سچ کا سامنا کرنے اور کھوئے ہوئے افراد کی یادوں کو عزت دینے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے۔
صیدنایا جیل کی مشینری کا خاتمہ ملک کی تعمیر نو کی طرف ایک علامتی قدم ہے اور یہ ان افراد کی مضبوطی کی یاد دہانی ہے جو بچ گئے، نیز اس بات کی مستقل ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ جوابدہی کا عمل جاری رکھا جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق 2011 سے 2018 کے درمیان 30 ہزار سے زیادہ افراد اس جیل میں پھانسیوں کے نتیجے یا تشدد، بھوک، یا طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث مارے گئے۔