چار ماہ میں مطالبات تسلیم نہ کیے تو تحریک چلانی پڑے گی: اپوزیشن

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’چار ماہ میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو تحریک چلانی پڑے گی۔ لیکن مذاکرات سے مسائل کا حل نکلے تو اس سے اچھی بات نہیں ہو سکتی اس لیے حکومت سے مذاکرات وقت کی ضرورت ہیں۔‘

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی تین مارچ، 2024 کو قومی اسمبلی میں داخل ہوتے ہوئے۔ انہوں نے گفتگو میں کہا کہ ’چار ماہ میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو تحریک چلانی پڑے گی‘ (اے ایف پی)

اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ہفتے کو کہا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کے حامی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بھی مشورہ دیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات ہونے چاہییں اور طے ہونا چاہیے کہ اقتدار سے کب جائے گی۔

محمود خان اچکزئی نے آج میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’چار ماہ میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو تحریک چلانی پڑے گی۔ لیکن مذاکرات سے مسائل کا حل نکلے تو اس سے اچھی بات نہیں ہو سکتی اس لیے حکومت سے مذاکرات وقت کی ضرورت ہیں۔‘

دوسری جانب پی ٹی آئی نے احتجاجی تحریکوں اور 16ویں ترامیم کی منظوری کے بعد تحفط آئین پاکستان موومنٹ سے رجوع کیا ہے۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات میں کہا کہ ’سول نافرمانی کی تحریک اور حکومت سے مذاکرات کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اتحادی اپوزیشن جماعتوں سے رابطے جاری ہیں۔ تاکہ ہم سب مل کر آئندہ کی حکمت عملی مشترکہ طور پر بنا سکیں۔‘

اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی نے اس سے قبل بھی مذاکرات کا کہا تھا، مذاکرات ضرور ہونے چاہییں، سیاسی مسائل کا حل سیاسی بیٹھک سے ہی ہوتا ہے۔‘

لیکن وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا اس حوالے سے کہا تھا کہ ’تحریک انصاف پہلے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر سچے دل سے معذرت کرے اور مثبت طرز سیاست اپنائے پھر ہی مذاکرات کامیاب ہونے کا امکان ہے۔‘

سول نافرمانی کی تحریک اور حکومت سے مذاکرات کا معاملہ

پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تحفظ آئین پاکستان موومنٹ سمیت تمام اپوزیشن اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر معاملات آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ محمود خان اچکزئی سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ جس میں حکومت سے مذاکرات اور ہماری سول نافرمانی کی تحریک پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر غور کیا گیا ہے۔‘

شعیب شاہین کے بقول ’ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ جو بھی سیاسی حکمت عملی بنائی جائے اس پر سب مل کر عمل کریں۔ تاکہ موثر انداز میں سیاسی عمل کو مضبوط کیا جائے۔ سول نافرمانی کی تحریک کی کال پر اتحادیوں سے گفتگو جاری ہے امید ہے کہ وہ اس تحریک میں ہمارا ساتھ ضرور دیں گے۔ اگر حکومت سے مذاکرات کیے جائیں تو اس پر بھی ہم سب کا متفقہ لائحہ عمل تیار ہو سکے۔‘

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کے سامنے مذاکرات کے لیے شرط نہیں مطالبات رکھے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اس سے قبل بھی مذاکرات کا کہا تھا، مذاکرات ضرور ہونے چاہییں، سیاسی مسائل کا حل سیاسی بیٹھک سے ہی ہوتا ہے۔ اس سے قبل بھی مذاکرات ہوئے لیکن ایک سٹیج سے قبل رابطہ ختم ہو گیا۔ بس اب بہت ہو گیا،اب بہتری کی طرف ملک کو بڑھانا چاہیے۔‘

دوسری جانب وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’جب ہم نے مذاکرات کی پیش کش کی تو پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ حکومت کی کوئی اوقات نہیں۔ ہم تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے۔

’سیاسی جماعت سے رابطے کا مطلب مذاکرات نہیں تاہم ایک میز پر بیٹھ کر ہی بات چیت سے حل نکالا جاسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں رابطے تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتے، رابطے تو رہتے ہیں لیکن رابطے کو مذاکرات نہیں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کو بلا مشروط اور نو مئی جیسے واقعات پر معذرت کرنا ہو گی۔ جبکہ پر امن اور مثبت سیاست کرنے کی یقین دہانی کرانا ہو گی۔‘

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آتے وقت تک پی ٹی آئی سے رابطے میں تھے مگر ان رابطوں کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے ڈیڑھ مہینہ پہلے فلور آف دی ہاؤس پر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی آفر کی اور کہا تھا کہ آئیں بیٹھ کر بات کریں۔

’اب ہم نے سنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہم سے ہی مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کر رہے تھے، مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھا جائے تو حل سامنے آتے ہیں۔‘

پی ٹی آئی کی اپوزیشن اتحاد متحرک کرنے کی کوشش

تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد علی خان نے گذشتہ روز اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود اچکزئی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام اتحادی اپوزیشن کے ساتھ رابطے کیے جائیں تاکہ آئندہ کا متفقہ لائحہ عمل بنایا جائے۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے جنرل سیکریٹری صفدر عباسی کے بقول، ’وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ان سے رابطہ کر کے اپوزیشن اتحاد کو متحرک کرنے کی پیش کش کی ہے۔ جس پر ملاقات کر کے بعض نکات پر آگے بڑھنے پر ہم نے مشاورت شروع کر دی ہے۔‘

اس حوالے سے تجزیہ کار سلمان غنی نے صورت حال پر تبصرہ کیا کہ ’تحریک انصاف حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ان کا طرز سیاست سولو فلائیٹ رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو عام انتخابات کے بعد جو مضبوط اتحاد بنا تھا انہوں نے ان کے ساتھ مل کر سیاسی تحریک چلانے کی بجائے اکیلے ہی پر تشدد احتجاج کا راستہ اپنایا۔ پھر 26ویں ترمیم کے موقع پر بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتوں کے باوجود ان کے ساتھ نہیں چلے۔

’اب اگر سیاسی حکمت عملی کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے اتحاد کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو سب کو اعتماد میں لے کر چلنا ہوگا۔ جو شاید عمران خان زیادہ دیر تک قبول نہیں کریں گے۔‘

پی ٹی آئی کو اتحادیوں سے رابطے کی ضرورت کیوں پڑی؟

گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے سیکریٹری جنرل صفدر عباسی نے انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اتحاد بنا تھا۔ اس اتحاد کے ذریعے ہم نے شروع میں موثر سیاسی تحریک چلائی۔

’لیکن بعد میں پی ٹی آئی نے اکیلے ہی احتجاج کی کال دی اور اس بارے میں ہم سے کوئی مشاورت نہیں ہو سکی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے 16ویں ترمیم کے معاملے پر بھی جے یو آئی سے ہی رابطہ رکھا اور پھر 24 نومبر کو احتجاج کی کال بھی اکیلے ہی دی۔ اب پی ٹی آئی نے ہم سے رابطہ کیا ہے جس میں آئندہ متفقہ حکمت عملی بنانے پر مشاورت ہوئی ہے۔ ہم نے پیغام دیا ہے کہ پہلے ہماری قیادت سے ملاقات کر کے لائحہ عمل طے کر لیں تو ہم اپوزیشن اتحاد کے ساتھ وفاقی سطح پر بھی طے شدہ معاملات کے تحت چلنے کو تیار ہیں۔ تاہم قیادت سے ملاقات کے بعد حتمی فیصلہ ہو گا۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’انتخابی عمل سے زخمی مولانا فضل الرحمن حکومت کو ٹارگٹ کرنے کے لیے تو تیار نظر آئے مگر پی ٹی آئی سے مل کر پر تشدد احتجاج کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا ٹارگٹ حکومت نہیں کوئی اور ہے۔ لہذا وہ تو ان کے ساتھ نہ آئے البتہ محمود خان اچکزئی کسی بڑے کردار کے لیے تحریک تحفظ آئین کے سربراہ بن گئے۔‘

سلمان غنی کے بقول، ’پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کوساتھ تو ملا لیا مگر اپنی حکمت پر انہیں اعتماد میں لینے کو تیار نہ تھے۔ لہذا اچکزئی بھی پیچھے ھٹتے گئے۔ اب دو باراسلام آباد مارچ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی آنکھیں کھلی ہیں اور انہیں سمجھ آ گئی کہ اکیلے حکومت تو چلائی جا سکتی ہے اپوزیشن نہیں۔

’جہاں تک سول نافرمانی کا سوال ہے تو یہ کارڈ بھی آخری کال کی طرز پر ہے کیونکہ پارٹی میں اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ انہیں واضح کرنا ہو گا کہ ان کا ٹارگٹ حکومت ہے یا ریاست، سول نافرمانی اور ترسیلات زر میں کمی حکومت کو نہیں ریاست کو کمزور کرے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست