انٹرنیٹ سروس میں خلل: پاکستانی قانون صارفین کو کیا حق دیتا ہے؟

گذشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس تعطل سے صارفین کیسے متاثر ہو رہے ہیں اور قانون انٹرنیٹ سروس تک رسائی پر صارفین کو کیا حقوق فراہم کرتا ہے۔

’چھ سات ماہ سے ہمارے کام میں کافی فرق آیا ہے۔ انٹرنیٹ میں خلل کی وجہ سے صارف سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے، اس وجہ سے آن لائن رائیڈز میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘

محمد صہیب گذشتہ چار، پانچ برس سے آن لائن رائڈ ہیلنگ ایپلیکیشن کے ذریعے گاڑی چلا رہے ہیں، تاہم گذشتہ کئی ماہ سے انٹرنیٹ کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے ان کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

’ہمارا کام مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔ کسٹمر کے پاس بھی انٹرنیٹ ہو گا تو ہمارے پاس رائیڈ آئے گی، اور اگر کہیں رائیڈ منظور بھی ہو جائے تو انٹرنیٹ میں خلل سے صارف کو ہماری موجودگی سے متعلق پیغام پہنچ نہیں پاتا کہ ہم کہاں ہیں، کیونکہ انٹرنیٹ فراہمی میں تعطل آ جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے صہیب نے کہا: ’چند ماہ قبل انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ان کا 100 فی صد چلتا کام صفر ہو کر رہ گیا۔ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے دیہاڑی دار افراد بالکل بے روزگار ہیں۔

’گذشتہ برس فروری سے انٹرنیٹ میں تعطل آ رہا ہے۔ میں نے ٹیلی کام کمپنیوں سے بھی رابطہ کیا اور کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا، ان کی طرف سے ہمیں متضاد بیانات دیے جاتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ ٹھیک چل رہا ہے، اگر انٹرنیٹ ٹھیک چل رہا ہے تو ہمارے پاس اس میں خلل کیوں؟‘

بچھلے کئی ماہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے، خواہ موبائل ڈیٹا سروس ہو یا براڈ بینڈ۔ صہیب جیسے متعدد صارفین کو روزمرہ کے کام میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا جائزہ لینے والی آزاد ویب سائٹ ٹاپ وی پی این ڈاٹ کام کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس پاکستان انٹرنیٹ کی بندش سے ہونے والے نقصانات میں ایک ارب 62 کروڑ ڈالر کے مجموعی مالیاتی اثرات کے ساتھ لسٹ میں سرفہرست رہا۔

جبکہ پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین سجاد سید کے مطابق انٹرنیٹ کی فراہمی میں تعطل سے پاکستان کو یومیہ تقریباً ایک ارب 30 کروڑ روپے کا کاروباری نقصان پہنچتا ہے۔

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آئین و قانون انٹرنیٹ تک رسائی پر صارف کو کیا حق فراہم کرتا ہے؟

صارفین (کنزیومر) کے معاملات سے متعلق مقدمات لڑنے والے وکیل عمران شفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کنزیومر کو بہترین سروس دینا، جس میں انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی شامل ہے، سروس پروائیڈر کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کی شکایت پی ٹی اے کو کی جا سکتی ہے۔‘

عمران کے مطابق ’پاکستان کی قومی سلامتی اور عوامی تحفظ کے تناظر میں آئے روز انٹرنیٹ کی بندش کی جاتی ہے جو بنیادی طور پر انسانی حقوق کے خلاف ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے موجودہ جسٹس اطہر من اللہ کی رولنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ڈیجیٹل رائٹس بنیادی طور پر بنیادی حقوق کا حصہ ہیں اور شہریوں کا رائٹ ٹو لائیف ہے جو آئین پاکستان کے آرٹیکل نو کے تحت زندگی کی ضمانت کا حق ہے۔

اگر کسی کو انٹرنیٹ کی فراہمی نہیں ہوتی تو کیا یہاں بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں؟

اس بارے میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ٹی اے ایکٹ میں ٹیلی کام یا موبائل فون کمپنیوں کی سروس کوالٹی بہتر نہ ہونے پر سیکشن 23 کے تحت اتھارٹی ایکشن لے سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’پہلے شو کاز نوٹس بھیجا جاتا ہے اس کے بعد پانچ کروڑ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

’اقوام متحدہ کی قرارداد میں سال 2016 میں یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (یو ڈی ایچ آر) کے مسودے میں ترمیم کر کے انٹرنیٹ کی رسائی کے حق کو اس میں شامل کیا گیا تھا۔‘

نگہت کے مطابق ’یو ڈی ایچ آر کے آرٹیکل 19 میں جو ممالک ہیں ان کے آئین میں بھی رسائی کا حق اور آزادی اظہار رائے کا حق شامل ہے تو جب اس کی تشریح ہوتی ہے تو آف لائن کے ساتھ آن لائن کی بھی تشریح کی جاتی ہے، اس وجہ سے انٹرنیٹ تک رسائی کا حق یا انٹرنیٹ پر جو آزادی اظہار رائے کا حق ہے، اسے بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب چئیرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ ماہ دسمبر میں ٹیلی کام کمپنیوں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو انٹرنیٹ میں خلل سے متعلق وجوہات جاننے کے لیے خط لکھا ہے، ان کی جانب سے جوابات بھی موصول ہو رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے ان جوابات سے متعلق تفصیل فراہم نہیں کی۔

یاد رہے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ میں خلل سے متعلق متضاد بیان دے چکی ہیں، جس میں انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔

ایک اور موقعے پر انہوں نے کہا کہ ایک سب میرین کیبل میں خرابی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ فراہمی میں تعطل ہے جبکہ ایک اور مرتبہ ان کا کہنا تھا کہ دو سب میرین کیبلز خراب ہیں۔

شزا فاطمہ خواجہ نے گذشتہ ماہ پارلیمان میں دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اس بات سے انکار نہیں ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے انٹرنیٹ صارفین کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم کچھ حقیقتیں ہیں جن کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی شوق ہے نہ فائدہ لیکن قومی سلامتی سے آگے کچھ نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ٹیلی کام کمپنیوں کو چند سوالات ارسال کیے جس کا موبی لنک اور یو فون کمپنی نے تو کوئی جواب نہیں دیا، تاہم زونگ کمپنی نے اس معاملے پر عوامی سطح پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے حکومت سے انٹرنیٹ فراہمی میں تعطل کی وجہ جاننے کی کوشش کی جس کے لیے وزیر مملکت برائے آئی ٹی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے اس معاملے پر بات نہیں کی۔

وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ سے جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’انٹرنیٹ کے مسئلہ کو کافی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’حالیہ ماہ میں انٹرنیٹ میں خلل ویب مینجمنٹ سسٹم کی اپ گریڈیشن اور وی پی این کا زیادہ استعمال، دونوں عوامل شامل تھے۔ ایک کیبل کا بھی ایشو ہوا اس کو مکمل طور پر حل کر لیا گیا تھا اور کافی بہتری آئی۔

’انٹرنیٹ سروس میں اگر مزید کوئی خلل ہے تو ہم پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو یہ گزارش کریں گے کہ وہ اس معاملہ کو باقاعدہ دیکھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی