شیر مت پالیے

سوال یہ ہے کہ شیر پالنے میں کیا تحفگی ہے؟ بلی پالیں، یوں بھی رتبے میں شیر سے بڑی ہے۔ کھانا بھی کم کھاتی ہے اور اپنے مربی کو کبھی نہیں کھاتی۔

لاہور میں نعمان حسن نامی ایک شہری چار اگست 2022 کو اپنے فارم ہاؤس میں پالے ہوئے بینگالی ٹائیگر کے ہمراہ موجود ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

میں نے ایک فارم پہ آنکھ کھولی جہاں پالتو جانور تو تھے ہی مگر ذرا دور پہ واقع ستلج کے بار سے جنگلی جانور بھی آنکلتے تھے۔

پالتو جانوروں کو پالنے میں کچھ خاص تردد اس لیے نہیں کرنا پڑتا تھا کہ وہ جانے کتنی نسلوں سے انسان کو اپنا مالک تسلیم کر چکے ہیں اور ان کی جنیاتی ساخت میں اس تعلق کو قائم رکھنے کی تبدیلیاں بھی واقع ہو چکی ہیں۔

گائے، بھینس، بیل، بھیڑ، گھوڑا، مرغی، کتا، بلی، سب ہی جانور موجود تھے مگر انسان کی مہا لالچی فطرت کا کیا کیا جائے کہ دل ہمیشہ لپلپاتا تھا کہ کوئی بھیانک قسم کا جنگلی جانور پالا جائے۔

ہمارا ایک ملازم جو خود کو شکاری بھی کہا کرتا تھا اکثر اس ایڈوینچر میں ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ دو ایک بار، سیہہ، بجو اور جھاو چوہے کے بچے لا کر دیے جو دو ایک روز سے زیادہ نہ بچ پائے۔

ایک بار ایک بھیڑیے کا بچہ پکڑا گیا۔ اس بےچارے کو کچھ روز رکھا گیا۔ جتنے روز وہ رہا، رو رو کے آسمان سر پہ اٹھائے رکھا۔ نہ کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔

پھیپھڑے کلیجی ایک سیخ سے باندھ کر لٹکائے تو دو ایک منہ مارے اور پھر جب اسے آزاد کیا گیا تو ایسا گیا کہ کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔

ان کرتوتوں کی خبر ابھی بڑوں کو نہیں تھی مگر تا وقت یہ کہ؟ ایک روز وہی ملازم جنگلی سور کے چار بچے اُٹھا لایا۔ منے منے سے یہ بچے، کتے کے پلوں اور بلی کے بلونگڑوں سے کہیں زیادہ دلچسپ اور عجیب و غریب لگے۔

دل کے اندر ایک احساس تفاخر ابھرا کہ بھلا ایسے جانور بھی کسی نے پالے ہوں گے؟ مگر وہ بچے بھی سور کے بچے تھے، چیں چیں کر کے ایک ساتھ جو روئے تو کسی طرح چپ نہ کرتے تھے۔

امی کو جانے کہاں سے بھنک پڑ گئی کہ ڈیرے میں یہ تماشا ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی اماں کو اس قدر غصے میں کبھی نہیں دیکھا۔

ڈانٹ تو سب ہی کو پڑی مگر اس ملازم کو یہ سزا بھی ملی کہ بچے وہیں واپس چھوڑ کے آ جہاں سے لایا ہے، ماں بچوں کے لیے ہڑک رہی ہو گی۔

اس وقت یہ بات سمجھ نہیں آئی، یہ ہی لگا کہ اماں ایک ظالم خاتون ہیں جن سے ہماری ننھی سی خوشی بھی نہیں دیکھی جاتی وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد گھر پہ شدید سختی کر دی گئی کہ آئندہ کسی قسم کا جنگلی جانور نہیں لایا جائے گا۔ بات سمجھ نہیں آئی۔ ایسی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔

آج کل پاکستان میں ایک رجحان بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ ہے شیر پالنے اور بریڈ کرنے کا رجحان۔ دو ایک بار کسی ڈالے میں بے چارہ سا شیر دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بار کسی سے ملنے گئے تو قریب سے شیروں کے دھاڑنے کی آواز آئی، علم ہوا پڑوس میں شیر پلے ہوئے ہیں۔

چند روز قبل ہمارے ایک ننھے سے بھانجے کو ایک صاحب اپنے ذاتی بریڈنگ فارم پہ لے گئے جہاں شیروں کی بریڈنگ کی جا رہی تھی۔ بچہ شیروں کو دیکھ کر گھر آیا تو ضد پکڑ لی کہ شیر پالوں گا۔

اپنا ماضی یاد آیا اور کسی بھی نصیحت سے باز رہے۔

سوال یہ ہے کہ شیر پالنے میں کیا تحفگی ہے؟ بلی پالیں، یوں بھی رتبے میں شیر سے بڑی ہے۔ کھانا بھی کم کھاتی ہے اور اپنے مربی کو کبھی نہیں کھاتی۔

اچھے وقتوں میں گیم وارڈن ہوا کرتے تھے، محکمہ جنگلی حیات ہوتا تھا، قوانین ہوتے تھے۔ اب بھی ہوتے ہوں گے۔ کچھ قوانین پرانے ہو گئے ہیں کچھ نئے بننے کی ضرورت ہے۔

شیر، نہ صرف جنگلی جانور ہے بلکہ اس کو پالنا میرے نزدیک تو خاصی حماقت ہے، نہ یہ دودھ دیتا ہے، نہ انڈا۔ سواری بھی نہیں کر سکتے، رات کو بھونکتا بھی نہیں، بلی کی طرح چاپلوسی بھی نہیں کرتا۔

سوائے اس کے کہ ہر پانچ سال بعد الیکشن کے موقعے پہ آپ اس کی نمائش کر سکتے ہیں۔ وہ بھی اگر آپ کسی دوسری سیاسی جماعت میں ہیں تو الٹا دشمنوں کی پبلسٹی ہو جائے گی۔

شیر پالنے کے فائدے پہ مضمون لکھوا کر دیکھ لیجیے، ایک بھی فائدہ نہیں ملے گا، تو پھر ایسا بے فائدہ جانور پالنے کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟

سادہ سے الفاظ میں ہماری مڈل کلاس سخت ’شوخی‘ ہو چکی ہے اور پیسے کی نمائش کے ہر احمقانہ موقعے پہ لپک رہی ہے۔ یہ ’شوخے‘ اصل میں ’شیخوں‘ سے شدید متاثر ہیں۔ بالکل متاثر ہوں مگر یہ شیر ویر پالنا قطعا عقلمندی کی حرکت نہیں۔

قانون بنانے والے کچھ ہوش میں آئیں اور سوچیں کہ کیا قانون ہونا چاہیے؟

عقل انسانی اور اخلاقیات تو یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ حماقت ہے چند سال کی عمر کے بچے تو یہ خواہش کر سکتے ہیں مگر سیانے لوگ جب شیر پالتے ہیں تو بس ہاسا ہی نکل جاتا ہے۔

آنے والے کسی بھیانک حادثے سے پہلے خبر لیجیے اور اس رجحان کو کسی صحت مند رجحان سے بدل دیجیے۔ یہ سوچ ہی دل دہلا دیتی ہے کہ کسی روز پڑوس کی شیرنی گھر میں گھس کے دھوپ سینکتی ساس کو کھا گئی۔ (راقم خود ساس کے عہدے پہ فائز ہے)۔

خدا کل عالم کی بہووں کو اس غم سے محفوظ رکھے۔ احتیاط کیجیے۔ جنگل میں منگل ضرور کیجیے مگر جنگلی جانوروں کو ان کے ماحول مہیا کیجیے اور انسانوں کو ان کی بستیوں میں محفوظ رہنے دیجیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر