افغانستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف پاکستان مخالف بلوچ گروہ موجود ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم بلوچستان میں مسافر ٹرین پر حملے کے حوالے سے پاکستانی فوج کے ترجمان کے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، جو اس واقعے کو افغانستان سے جوڑتے ہیں۔‘
عبدالقہار بلخی نے مزید کہا کہ ’ہم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بجائے اپنی سلامتی اور اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دے۔‘
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ ’(پاکستان میں) حزب اختلاف کے کسی بلوچ گروہ کا کسی رکن کی افغانستان میں موجودگی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کبھی امارت اسلامیہ سے کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی تعلق ہے۔‘
انہوں نے بلوچستان کے ضلع بولان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں ریل گاڑی پر حملے اور مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس واقعے میں بے گناہوں کی جانوں کے ضیاع پر دکھ ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے شہریوں کی قربانی دینا بلا جواز ہے۔‘
بلوچستان کے ضلع بولان کے ایک دور افتادہ علاقے میں منگل (11 مارچ) کو شدت پسندوں نے کوئٹہ سے پشاور جاتے ہوئے جعفر ایکسپریس (اپ 39) کو 400 مسافروں سمیت یرغمال بنا لیا تھا اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے تقریباً 24 گھنٹوں کی کوششوں کے بعد مسافروں کو یرغمالیوں کے چنگل سے رہا کروایا۔
حکومتی اور دوسرے سرکاری حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز کی اس کارروائی کے دوران 33 حملہ آوروں کو مارا گیا۔
جعفر ایکسپریس کے یرغمال بنائے جانے کے کچھ ہی دیر بعد پاکستان میں میڈیا کے نمائندوں کو پیغامات موصول ہوئے، جن میں بلوچستان لبریشن آرمی نے ریل گاڑی پر حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کی ذمہ داری قبول کی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ ٹرین اور اس کے مسافروں کو یرغمال بنانے میں بلوچستان لبریشن آرمی نامی تنظیم کا ہاتھ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرین پر حملہ کرنے والوں میں خود کش بمبار بھی شامل تھے، جنہوں نے تمام وقت مسافروں کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’دورانِ کارروائی دہشت گرد سیٹلائٹ فونز کے ذریعے افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔‘
اسی حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران میڈیا کو بتایا کہ ’جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے میں ملوث لوگ ملک کے باہر سے آپریٹ کر رہے تھے۔ دہشت گرد افغانستان میں ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے۔ جعفر ایکسپریس حملہ بہت بڑی کارروائی تھی، اس کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر کہ کیا حملہ آوروں کے افغانستان میں رابطوں پر کابل کے ساتھ معاملہ اٹھایا گیا ہے؟ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے جواب دیا: ’ابھی ریسکیو آپریشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ معاملہ ابھی سفارتی سطح پر نہیں اٹھایا، ہم مرحلہ وار آگے بڑھیں گے۔ ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بارے میں سفارتی سطح پر کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں۔‘
دوسری جانب انڈیا کی وزارت خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے عائد کیے گئے دہشت گردی کے حوالے سے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان شری رندھیر نے سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان کو اپنی ناکامیوں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔‘
پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے انڈیا کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں دشمنانہ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کی تاریخ
بی ایل اے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے سب سے بڑے مسلح گروہوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور امریکہ دونوں نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
بی ایل اے اور دیگر باغی تنظیمیں پاکستان کی وفاقی حکومت پر بلوچستان کے قدرتی وسائل، جیسے تیل اور معدنیات، کے استحصال کا الزام لگاتی ہیں۔ یہ ملک کا سب سے بڑا لیکن کم ترین آبادی والا صوبہ ہے، جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔
یہ تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ پاکستان نے 1948 میں برطانوی دور حکومت کے دوران بلوچستان پر حکمرانی کرنے والی قلات ریاست کو الحاقی معاہدے پر مجبور کر کے صوبے کو زبردستی ضم کر لیا تھا۔
بی ایل اے کا طویل عرصے سے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ تنظیم اکثر قدرتی وسائل کے منصوبوں پر حملے کرتی ہے، کیونکہ صوبے کے پہاڑی علاقے باغیوں کی پناہ گاہ سمجھے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طویل عرصے تک بی ایل اے کے حملے نسبتاً محدود پیمانے کے ہوتے تھے، لیکن گذشتہ اگست میں اس نے بڑے پیمانے پر ایک کارروائی کی جس میں تقریباً 70 افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں میں مشاخیل کے علاقے میں 23 مسافر بھی شامل تھے، جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا اور انہیں گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ سال کراچی ایئرپورٹ کے قریب دو چینی شہریوں کے قتل کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ اس کے علاوہ، اس تنظیم نے ایک چینی یونیورسٹی پر خودکش حملہ کرنے کے لیے خواتین بمباروں کو بھیجا، جس کا مقصد بلوچستان میں چینی کمپنیوں کے سونے اور تانبے کی کانوں کے منصوبوں کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
چین نے بلوچستان میں 50 ارب پاؤنڈ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق، بی ایل اے نے گذشتہ سال مجموعی طور پر 1,600 سے زائد افراد کی جانیں لی ہیں۔
بی ایل اے نے ٹرین پر حملہ کیوں کیا؟
بی ایل اے نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچ سیاسی قیدیوں، کارکنوں اور ان شہریوں کو رہا کیا جائے جو مبینہ طور پر فوجی کارروائیوں کے دوران لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ان آپریشنز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
ٹرین ہائی جیک کرنے کے بعد، بی ایل اے نے کہا کہ اس نے کئی سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے جو چھٹی پر گھروں کو جا رہے تھے۔
بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا، ’عام شہری مسافروں، خاص طور پر خواتین، بچوں، بزرگوں اور بلوچ شہریوں کو بحفاظت رہا کر دیا گیا ہے اور انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔‘