ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے علاقے تل عذیقہ میں ایک بچی کو جو ’خوبصورت پتھر‘ ملا، وہ دراصل کانسی کے دور کا ایک سکارب تعویز ہے، جو تقریباً 3,800 سال قدیم ہے۔
اسرائیل کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے مطابق، یہ پتھر زیو نیتسان نامی تین سالہ بچی کو ایک کچی پگڈنڈی پر چہل قدمی کے دوران ملا، جہاں بجری بچھائی گئی تھی۔
زیو کی بڑی بہن، عمر نیتسان نے ایک ویڈیو میں بتایا: ’ان کے ارد گرد تقریباً سات ہزار پتھروں میں سے، اُنہوں نے ایک خاص پتھر اٹھایا۔ جب اُنہوں نے اس پر لگی ریت صاف کی تو ہمیں محسوس ہوا کہ یہ کچھ مختلف ہے۔
میں نے فوراً اپنے والدین کو بلایا کہ یہ خوبصورت پتھر دیکھیں، اور ہمیں احساس ہوا کہ شاید ہم نے ایک آثارِ قدیمہ کی شے دریافت کر لی ہے۔ ہم نے فوراً اس کی اطلاع اسرائیلی آثارِ قدیمہ کے ادارے کو دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمے نے اس پتھر کو وسطی کانسی کے دور سے تعلق رکھنے والا ’کِنعانی سکارب‘ قرار دیا۔ کنعانی ایک قدیم قوم تھی جو مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں آباد تھی اور ان کے مصر سے قریبی تعلقات تھے۔
اُس دور میں کنعانی لوگ سکارب، یعنی گولے بنانے والے کیڑے (dung beetle) کی شکل والے تعویز اور مہریں استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کے مطابق، ایسے امولیٹ جن پر مختلف نشان یا پیغامات ہوتے تھے، اکثر قبروں، عوامی اور نجی عمارتوں میں پائے جاتے ہیں۔
یہ رواج اصل میں قدیم مصر سے آیا تھا، جہاں لوگ گولے بنانے والے کیڑے کو سورج دیوتا کا نمائندہ سمجھتے تھے، کیونکہ یہ کیڑا گوبر کے گولے کو جیسے دھکیلتا ہے، ویسے ہی سورج دیوتا آسمان میں سورج کی گولائی کو چلاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مصری زبان میں اس کیڑے کا نام بھی اُس فعل سے نکلا ہے جس کا مطلب ’پیدا ہونا‘ ہے، کیونکہ قدیم مصری اسے تخلیق کا نشان سمجھتے تھے۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ گذشتہ 15 سال سے تل عذیقہ میں کھدائیاں کر رہے ہیں، جہاں سے انہیں بےشمار نوادرات ملے ہیں جو ہزاروں سال پہلے اس علاقے کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان دریافتوں میں قدیم شہر کی فصیلیں اور یہودی سلطنت کے دور کی زرعی تعمیرات شامل ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی کی کھدائی کے نگران، اوڈیڈ لپشیٹس نے کہا: ’کھدائی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ درمیانے کانسی کے دور اور آخری کانسی کے دور میں تل عذیقہ یہودیہ کے نشیبی علاقوں کا ایک نہایت اہم شہر تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’زیو کو جو سکارب ملا ہے، وہ یہاں دریافت ہونے والی مصری اور کنعانی نوادرات کی ایک طویل فہرست میں شامل ہو گیا ہے، جو اس دور میں کنعان اور مصر کے درمیان قریبی تعلقات اور ثقافتی اثرات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔‘
© The Independent