پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلگام واقعے کے بعد پیدا ہوئی تھی اس میں امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان فوری فائر بندی کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکس پر لکھا کہ امریکہ کی ثالثی میں رات دیر تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد خوشی ہے کہ انڈیا اور پاکستان مکمل اور فوری فائربندی پر رضامند ہو گئے ہیں۔
کشیدگی کی وجہ کیا بنی؟
پاکستان نے 10 مئی کی صبح بھارت کی جانب سے اپنی مختلف فوجی تنصیبات پر حملوں کے جواب میں بھارت کے 26 مختلف فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پنجاب کے ضلع بہاولپور میں فضائی حملے کیے تھے۔
پاکستان فوج کے ترجمان کے مطابق ان حملوں میں 31 افراد جان سے گئے۔
پاکستان نے دفاع میں کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے بھی شامل تھے۔
بھارت نے اس کی تردید کی، تاہم خبر رساں اداروں روئٹرز اور سی این این نے امریکی اور فرانسیسی حکام سے بات چیت کے بعد رافیل طیارے گرنے کی تصدیق کی ہے۔
اس صورتحال میں مختلف ممالک کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن امریکہ کے کردار کو اہم گردانا جاتا ہے۔
امریکہ کا موجودہ وقت میں پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ بہتر تعلق ہے اور گذشتہ دنوں امریکہ کے نائب صدر جیمس ڈیوڈ وینس نے بتایا تھا کہ یہ دو ایٹمی ممالک کے مابین کشیدگی ہے اور امریکہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
تاہم دوسری جانب امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ رابطہ کر کے ’فوری فائر بندی‘ اور امریکہ کی جانب سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت میں مدد کی پیشکش کی ہے تھی اور آج فائر بندی کا اعلان کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ماضی میں انڈیا اور پاکستان کے مابین لڑی جانے والی جنگوں پر نظر دوڑائی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ ماضی میں ان جنگوں میں امریکہ کا کیا کردار رہا ہے؟
65 کی جنگ
اس سے پہلے انڈیا اور پاکستان کے مابین مختلف جنگیں لڑی گئی ہیں جس میں 1965 کی جنگ اہم ہے جب کشمیر کے معاملے پر دونوان ممالک کے درمیان کشیدگی شروع ہوئی اور معاملہ فضائی حملوں تک پہنچ گیا۔
ایئر پاور ریویو نامی جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان نے 1965 جنگ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ تب ہوا تھا جب 1962 میں انڈیا اور چین جنگ میں انڈیا کو شکست ہوئی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق پاکستان سمجھتا تھا کہ انڈیا کا مورال گرا ہے اور وہ آسانی سے کشمیر پر قبضہ کر سکیں گے۔
اس دوران سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ نے 50 کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف کسی بھی جارحیت کے خلاف سیٹو اور سینٹو معاہدے کے تحت پاکستان کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔
تاہم اس معاہدے میں یہ لکھا گیا تھا کہ یہ اسلحہ انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہوگا جبکہ اسی دوران امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے انڈیا کو بھی اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔
اگست 1965 میں باقاعدہ دونوں ممالک کے مابین جنگ کا آغاز ہوا اور چھ ستمبر تک جاری رہا جس میں انڈیا اور پاکستان دونوں جنگ جیتنے کے دعوے کرتے رہے۔
امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ میں شائع ایک مضمون کے مطابق امریکہ کی جانب سے انڈیا کو مبہم نظروں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ 1962 میں چین اور انڈیا کی جنگ میں انڈیا کو شکست کے بعد انڈیا نے سویت یونین سے مدد حاصل کرنی کی کوشش کی تھی۔
بعد میں 1965 کی جنگ میں فائربندی کے لیے اقوام متحدہ سے قرار داد نمبر 211 پاس کرائی گئی جس کے تحت امریکہ اور برطانیہ نے انڈیا اور پاکستان کو اسلحے کی فراہم روک دی۔
قرارداد پاس ہونے اور امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے اسلحے کی فراہمی روکنے کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں نے 21 اور 22 ستمبر 1965 کو فائر بندی معاہدے پر دستخط کیے اور یوں جنگ ختم ہونے کا اعلان ہوا۔
امریکہ کا 1971 جنگ میں کردار
اس وقت مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں عام انتخابات میں جب علیحدگی پسند سیاسی جماعت نے انتخابات جیت لیے تو اس کو قبول نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون کے مطابق 1971 جنگ میں امریکہ نے مبہم انداز میں کردار ادا کیا تھا کیونکہ اس وقت خطے میں حالات ویسے بھی پیچیدہ تھے۔
انڈیا نے اس وقت 1970 میں سویت یونین کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جبکہ چین کا پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور انڈیا کے ساتھ 1962 میں جنگ لڑ چکے تھے۔
اسی دوران امریکہ کے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور 1969 میں 1965 کے فائر بندی معاہدے کے تحت پاکستان کو اسلحہ بیچنے پر پابندی امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ہٹا دی تھی۔
اس دوران امریکہ نے پاکستان کی مکمل حمایت کی تھی لیکن امریکہ کو خطرہ تھا کہ اگر مشرقی پاکستان جدا ہوگیا تو پاکستان اس سے کمزور ہوجائے اور مشرقی فرنٹ بھی کمزور ہوگا لیکن مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے امریکہ مزید کچھ نہ کر سکا اور مشرقی پاکستان جدا ہوگیا۔
اس دوران امریکہ نے بظاہر انڈیا اور پاکستان کو یہ واضح کیا تھا کہ امریکہ کا جنوبی ایشیا کی سیاست میں کردار محدود ہے اور یہی بات اب بھی امریکی نائب صدر کی جانب سے کہی گئی ہے۔
اس کے بعد سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 1971 کی جنگ پر ایک مضمون کے مطابق 1971 کی جنگ کے بعد امریکہ کا جنوبی ایشیا میں اثر رسوخ کم ہوگیا کیونکہ پاکستان کو شکایت تھی کہ امریکہ نے مشرقی پاکستان جدا ہونے سے نہیں روکا جبکہ انڈیا کو شکایت تھی کہ امریکہ نے پاکستان کو جنگ میں سپورٹ کیا۔
اس سے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق سویت یونین کا جنوبی ایشیا پر اثر رسوخ بڑھ گیا اور انڈیا جنوبی ایشیا میں ایک مضموط طاقت بن کر ابھرا۔
1999 میں کارگل پر انڈیا پاکستان جنگ
انڈیا اور پاکستان کے مابین مئی 1999 سے جولائی 1999 تک مسئلہ کشمیر پر جنگ لڑی گئی۔
اس لڑائی میں مقالے کے مطابق امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے کھلے عام انڈیا کی حمایت کی گئی اور اس وجہ یہ بنی کہ امریکہ کو پتہ لگ گیا تھا کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس کے بعد مقالے کے مطابق 20 سال بعد امریکہ کے کسی صدر نے کارگل جنگ کے ایک سال بعد انڈیا کا دورہ کیا تھا۔
تاہم انسٹی ٹیوٹ اف پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز پر شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق عجیب بات کی تھی کہ 1947-48 اور 1965 کی جنگ میں امریکہ نے انڈیا اور پاکستان پر ملٹری پابندیاں عائد کی تھی لیکن کارگل لڑائی کے عین درمیان میں پانچ سال کے لیے وہ پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق امریکہ نے بظاہر کارگل لڑائی میں نیوٹرل کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی اور دونوں ملکوں کو معاملات ٹھیک کرنے کا بتایا گیا تھا کیونکہ امریکہ کو خوف تھا کہ دو ایٹمی طاقتوں سے جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے جریدے میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق کارگل لڑائی میں روس اور اسرائیل نے انڈیا کو سپورٹ کیا تھا جس طرح ماضی میں کرتے رہے۔
اسی طرح چین کے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے بعد بھی اس وقت مئی میں جنرل پرویز مشرف کے دورے کے دوران بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی انڈیا کے ساتھ لڑائی درست نہیں اور پاکستان کو فوجی دستے واپس کرنے ہوں گے۔