’سنگین مسئلہ‘: کابل میں پانی روز بہ روز کم ہو رہا ہے

افغان دارالحکومت کی رہائشی بی بی جان جیسے سینکڑوں لوگوں کو بعض اوقات خوراک اور پانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

کابل کی رہائشی بی بی جان ہر ہفتے اپنے شوہر کی معمولی یومیہ اجرت میں سے کچھ رقم نکال کر مہنگا پانی خریدتی ہیں، جو رکشے پر لادے گئے ٹینکروں کے ذریعے افغانستان کے خشک ہوتے دارالحکومت کے رہائشیوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔

کابل ایک شدید آبی بحران کے دہانے پر ہے، جو بے ہنگم اور تیز شہری پھیلاؤ، برسوں کے تنازعات کے دوران بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی بی جان جیسے لوگوں کو بعض اوقات خوراک اور پانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

45  سالہ بی بی جان نے اے ایف پی کو بتایا: ’جب میرے بچوں کو کئی دن تک صرف چائے ملتی ہے، تو وہ کہتے ہیں، آپ نے پانی خریدا اور ہمارے لیے کچھ نہیں لیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ نہانے، برتن دھونے اور کپڑے دھونے کے لیے استعال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کرتی ہیں۔

ماہرین طویل عرصے سے کابل میں پانی کے مسائل کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں، جو اس وقت مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی بین الاقوامی فریقین نے بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور افغانستان کے لیے فنڈنگ میں نمایاں کمی کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے یونیسیف نے گذشتہ سال خبردار کیا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ’2030 تک کابل میں زیر زمین پانی بالکل ختم ہو سکتا ہے۔‘

دیگر ماہرین قدرے محتاط رائے رکھتے ہیں اور مسلسل اور قابل اعتماد ڈیٹا کی کمی کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ صورت حال واضح طور پر بگڑتی جا رہی ہے۔

آبی  وسائل کے انتظام کے ماہر عاصم مایار نے کہا کہ 2030 کا خطرہ ’بدترین ممکنہ صورت حال‘ ہے۔

عاصم مایار کے مطابق یہاں تک کہ اگر آئندہ چند برسوں میں مجوزہ ترقیاتی منصوبے مکمل بھی ہو جائیں تو ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ صورت حال اب سے بہتر ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ مسائل صرف بڑھتے جا رہے ہیں۔‘ کیوں کہ آبادی میں اضافہ شہری منصوبہ بندی سے آگے نکل چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلی معمول سے کم بارشوں کا باعث بن رہی ہے۔

’روزبروز کمی‘

طالبان حکام نے پانی کو دوبارہ استعمال کے منصوبوں سے لے کر ملک بھر میں سینکڑوں چھوٹے ڈیم بنانے جیسے اقدامات کا آغاز کیا ہے، لیکن بڑے پیمانے پر یہ اقدامات مالی وسائل اور تکنیکی صلاحیت کی کمی کے باعث رکی ہوئی ہیں۔

جب سے طالبان نے مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کو ہٹا کر اپنا سخت اسلامی قانون نافذ کیا، انہیں کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ خواتین پر عائد پابندیاں بھی اس حوالے سے ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان خطے میں ’موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات‘ کا سامنا کر رہا ہے اور طالبان حکومت بارہا غیر سرکاری تنظیموں سے پانی اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق رکے ہوئے منصوبے دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کر چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پانی و توانائی کی وزارت کابل کو پانی فراہم کرنے کے لیے پنج شیر دریا کا رخ موڑنا چاہتی ہے، لیکن اس منصوبے کے لیے 30 کروڑ سے 40 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ کابل کے قریب ڈیم کا منصوبہ دباؤ کم کر سکتا تھا، لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اسے مؤخر کر دیا گیا۔

غیر سرکاری تنظیم مرسی کور کی مئی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق فی الحال کابل میں پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ زیرِزمین پانی ہے، جس میں سے تقریباً 80 فیصد آلودہ ہے۔

اس این جی او نے بتایا کہ یہ پانی شہر بھر میں موجود ایک لاکھ سے زائد غیر منظم کنوؤں سے نکالا جاتا ہے، جنہیں باقاعدگی سے مزید گہرا کیا جاتا ہے یا وہ خشک ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی دوبارہ جذب کروایا جا سکتا ہے، لیکن کابل میں ہر سال جتنا پانی نکالا جاتا ہے، اس سے کہیں کم واپس زمین میں جذب ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں سالانہ اندازاً سات کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر (20 ارب گیلن) پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

سرکاری واٹر کمپنی یوواس کے مرکزی کابل آپریشنز کے سربراہ شفیع اللہ زاہدی نے کہا کہ ’یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ شہر میں پانی روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ دہائیوں پہلے بنائے گئے آبی نظام اب شہر کی صرف 20 فیصد آبادی کو پانی فراہم کر رہے ہیں، جب کہ گذشتہ 20 برسوں میں کابل کی آبادی چھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔

’پانی کم استعمال کریں‘

کابل کے 15 پمپنگ سٹیشنز میں سے ایک پر، مینٹی نینس مینیجر محمد احسان نے بتایا کہ سات سال پرانا کنواں پہلے ہی کم پانی دے رہا ہے، جب کہ قریب کے دو دیگر کنویں مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں۔

53 سالہ احسان، جو دو دہائیوں سے پانی کے نظام سے وابستہ ہیں، ایک پرانے کنویں کے پاس کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ’جن جگہوں پر پانی سطح کے قریب تھا، وہاں اب پانی خشک ہو چکا ہے۔‘

یہ کنواں کبھی 70 میٹر (230 فٹ) کی گہرائی سے پانی دیتا تھا لیکن نئے کنویں کے لیے زیر زمین پانی تک پہنچنے کے لیے اس سے دو گنا زیادہ گہرائی تک کھدائی کرنا پڑی۔

شہر کے دو بڑے سٹیشنز میں سے ایک کے لیے، بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) نے حال ہی میں چار نئے پمپ فراہم کیے، جہاں پہلے صرف ایک پمپ کام کر رہا تھا۔

آئی سی آر سی کے ڈپٹی واٹر اینڈ ہیبی ٹیٹ کوآرڈینیٹر بارا عافیہ نے کہا کہ ’اگر ایک پمپ کسی وجہ سے ناکارہ ہو جاتا، تو اس کا مطلب ہوتا کہ 25 ہزار گھروں کو پانی نہیں ملے گا۔‘ تاہم اب ان گھروں کو بلا تعطل پانی میسر ہے۔

ریاستی واٹر کمپنی کے زاہدی نے کہا کہ ’کابل میں ہر فرد کو 24 گھنٹے پانی کی سہولت حاصل ہونی چاہیے۔‘

لیکن حقیقت میں بی بی جان اور کابل کے بہت سے دوسرے شہریوں کو پانی وزنی برتنوں میں کنوؤں سے اٹھا کر لانا پڑتا ہے یا ٹینکروں سے مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔

یہ سپلائرز سرکاری ادارے کے مقابلے میں کم از کم دو گنا زیادہ قیمت لیتے ہیں، جب کہ پینے کے قابل پانی کی قیمت اور بھی زیادہ ہوتی ہے، وہ بھی ایسے ملک میں جہاں 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم میں گزارا کرتی ہے۔

بی بی جان کہتی ہیں کہ انہیں اپنے گھر والوں کے پانی کے استعمال پر سختی سے نظر رکھنی پڑتی ہے۔

’میں اُن سے کہتی ہوں کہ میں کنجوس نہیں، لیکن کم پانی استعمال کرو۔ کیوں کہ اگر پانی ختم ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات