پولیس کے مطابق پنجاب کے شہر سرگودھا میں واقع فاطمہ ہسپتال کے اندر جمعے کو سینیئر گیسٹرولوجسٹ ڈاکٹر محمود کے قتل کا مقدمہ درج کرکے ملزم کی تلاش شروع کر دی گئی، جس نے واقعے کے وقت ’صاف ستھرا پنجاب‘ پروگرام کا یونیفارم پہن رکھا تھا۔
واقعے کا مقدمہ مقتول ڈاکٹر کے بیٹے کی مدعیت میں درج کیا گیا، جو خود بھی ڈاکٹر ہیں اور جن کا نام سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ظاہر نہیں کیا جا رہا اور جو واقعے کے وقت اپنے والد کے ساتھ موجود تھے۔
پولیس ترجمان محمد عابد کے مطابق ابھی تک ملزم گرفتار نہیں ہوا، اس لیے ڈاکٹر محمود کے قتل کی وجہ حتمی طور پر سامنے نہیں آئی، تاہم اب تک کی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قتل کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ احمدی فرقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے مقتول کو نشانہ بنایا گیا۔
امور عامہ احمدیہ کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ڈاکٹر محمود کا تعلق احمدیہ مسلک سے تھا اور وہ گذشتہ کئی سال سے سرگودھا میں بطور ڈاکٹر فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ برطانیہ سے تعلیم حاصل کر کے واپس آئے اور یہیں خدمات سرانجام دینے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے چار بچے ہیں، ایک بیٹا ساتھ ہی فاطمہ ہسپتال میں ڈیوٹی کرتا ہے۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں بھی ڈاکٹر ہیں لیکن وہ کینیڈا میں ہوتے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ڈاکٹر صاحب کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ’میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات رہی جس میں انہوں نے تذکرہ کیا کہ انہیں کچھ عرصہ قبل صادق ہسپتال سرگودھا کو اس لیے چھوڑنے کا کہا گیا تھا کہ انتظامیہ پر دباؤ تھا کہ احمدی ڈاکٹر یہاں کام کیوں کر رہا ہے۔ اب بھی انہیں جان کا خطرہ موجود تھا اسی لیے وہ اکیلے ہسپتال نہیں جاتے تھے بلکہ اپنے بیٹے کے ساتھ سفر کرتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہا ’کسی کو بھلا ایک ڈاکٹر سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ اس لیے گمان یہی ہے کہ انہیں مسلک کی بنیاد پر قتل کیا گیا ہے۔‘
اس حوالے سے سرگودھا پولیس کے ترجمان محمد عابد کہتے ہیں کہ ’مسلک کی بنیاد پر واقعات تو کئی شہروں میں پیش آتے رہتے ہیں۔ سرگودھا میں بھی ماضی میں مختلف نوعیت کے واقعات پیش آچکے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بغیر ثبوت کے ہر واقعے کو مذہبی منافرت سے جوڑ دیا جائے۔ اس قتل کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے، جس طرح کئی بار سامنے آتی بھی رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’جہاں تک ڈاکٹر محمود کے صادق ہسپتال چھوڑنے کا تعلق ہے تو ہماری معلومات کے مطابق 10، 12 سال پہلے انہوں نے صادق ہسپتال چھوڑا تھا۔ اب وہ فاطمہ ہسپتال میں ڈیوٹی کر رہے تھے۔
’وہ گھر سے گاڑی میں ہسپتال آتے جاتے تھے، لیکن کبھی انہوں نے دھمکیاں ملنے یا جان کو خطرے سے متعلق پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے اپنے ساتھ کوئی سکیورٹی یا سکیورٹی گارڈ بھی نہیں رکھا تھا۔
’البتہ پولیس ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے اور جلد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا، پھر تفتیش میں ہی اصل وجہ سامنے آئے گی۔‘
واقعہ پیش کیسے آیا؟
تھانہ شاہد شہید سرگودھا میں دفعہ 302 کے تحت درج کروائے گئے مقدمے میں مقتول کے بیٹے نے موقف اختیار کیا کہ ’میں اپنے والد کے ساتھ بہادر شاہ ظفر روڈ سرگودھا میں واقع اپنی رہائش سے جمعے کی صبح گاڑی پر ہسپتال پہنچا۔ ہم نے فاطمہ جناح ہسپتال کی پارکنگ میں معمول کے مطابق گاڑی کھڑی کی اور ہسپتال کی عمارت میں داخل ہوئے۔ میرے والد آگے چل رہے تھے، میں ان کے پیچھے تھا۔ وہاں پر ہسپتال کا عملہ بھی موجود تھا۔‘
مدعی کے مطابق: ’جب ہم ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے تو اچانک نامعلوم نوجوان، جس نے صاف ستھرا پنجاب کی وردی پہن رکھی تھی، نے سفید شاپر سے 30 بور کا پستول نکال کر میرے والد پر تان لی۔ اس نے للکارا کہ محمود آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور یکے بعد دیگرے دو فائر کیے، جو کمر سے لگ کر چھاتی سے نکل گئے اور میرے والد موقعے پر ہی دم توڑ گئے۔‘
مقتول کے بیٹے نے ایف آئی آر میں مزید کہا: ’ملزم فرار ہونے لگا تو میں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، جس پر اس نے میری طرف پستول کا رخ کیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ گیٹ کی طرف بھاگا، ہم نے پیچھا کیا تو وہ گیٹ سے ایک موٹر سائیکل سوار ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ میں ان دونوں کو سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق سی سی ٹی وی ویڈیو میں قاتل کو صاف ستھرا پنجاب کی وردی اور چہرے پر ماسک پہنے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن ابھی تک شناخت نہیں ہوئی کہ وہ ضلعی انتظامیہ کا ملازم تھا یا نہیں۔