سعودی عرب کے شاہ سلمان نے فلسطینی عوام کے ’شہدا، قیدیوں اور زخمیوں‘ کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 1000 افراد کو رواں برس حج کی ادائیگی کے لیے اپنے ذاتی خرچ پر مکہ مکرمہ مدعو کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق یہ اقدام ’خادمِ حرمین شریفین پروگرام برائے حج، عمرہ و زیارت‘ کا حصہ ہے جس پر مملکت کی وزارتِ اسلامی امور، دعوت و ارشاد عمل درآمد کر رہی ہے۔
اس موقع پر وزیرِ اسلامی امور، دعوت و ارشاد اور پروگرام کے عمومی نگران شیخ ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ نے کہا ہے کہ یہ اقدام مملکت سعودی عرب کی فلسطینی عوام کے لیے مستقل حمایت اور اسلامی بھائی چارے کے جذبے کو مضبوط کرنے کا مظہر ہے۔
ڈاکٹر آل الشیخ نے واضح کیا کہ یہ اقدام سعودی قیادت کی اس مسلسل کاوش کا تسلسل ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کو حج کی ادائیگی میں آسانیاں فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزارت نے اس فیصلے کے فوراً بعد ایک جامع منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے تاکہ فلسطینی عازمینِ حج کو ان کے وطن سے روانگی کے لمحے سے لے کر واپسی تک تمام ضروری سہولیات اور خدمات مہیا کی جا سکیں۔
’ان کی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مکمل انتظامی نظام فراہم کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس پروگرام کا آغاز 1417 ہجری میں کیا گیا تھا اور اب تک دنیا بھر کے مختلف ممالک سے 64 ہزار سے زائد عازمینِ حج کی میزبانی کی جا چکی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مملکت سعودی عرب اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے مسلسل کوشاں ہے اور عالمِ اسلام کے مرکز اور قبلۂ اول کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
غزہ میں فلسطینیوں کا قتل
سات اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں انسانی جانوں کا شدید نقصان ہوا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اب تک کم از کم 53,339 فلسطینی قتل اور ایک لاکھ 21 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 19 مئی 2025 تک کے ہیں۔
قتل ہونے والے فلسطینیوں میں خواتین، بچے اور بزرگ افراد کی بڑی تعداد شامل ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام شہری اس تنازعے کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ہی، غزہ میں بنیادی سہولیات کی تباہی، خوراک اور ادویات کی قلت، اور انسانی امداد کی محدود رسائی نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کوششیں جاری ہیں، لیکن اب تک کوئی مستقل حل سامنے نہیں آیا ہے۔
اس صورتحال میں، غزہ کے عوام کو فوری انسانی امداد اور پائیدار امن کی ضرورت ہے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
سعودی عرب کا فلسطین کے معاملے میں موقف
سعودی عرب کا فلسطین کے معاملے پر موقف تاریخی، مستقل اور دو ٹوک رہا ہے۔ مملکت نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت، ایک خودمختار ریاست کے قیام اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔
دو ریاستی حل کی حمایت
سعودی عرب اقوام متحدہ کی قراردادوں، 1967 کی سرحدوں اور مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے۔
یہی مؤقف سعودی عرب نے تمام بین الاقوامی پلیٹ فارمز، بشمول عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور اقوام متحدہ میں بارہا دہرایا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے اور جنگ
سات اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف سعودی عرب نے بارہا فائر بندی کا مطالبہ کیا، فلسطینی شہریوں کے قتل عام کی مذمت کی، اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی طاقتوں پر فوری انسانی مداخلت کا مطالبہ کیا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’ہم فلسطینی عوام کی غیر مشروط حمایت جاری رکھیں گے۔ اسرائیل کے مظالم ناقابل قبول ہیں۔‘
انسانی امداد
سعودی عرب نے فلسطینی عوام کے لیے سعودی ہلال احمر کے ذریعے طبی امداد، کنگ سلمان ریلیف سینٹر کے تحت خوراک، ادویات، خیمے، زخمیوں کی علاج کے لیے منتقلی اور پناہ گزینوں کی امداد فراہم کی ہے۔
سفارتی سطح پر سرگرمیاں
سعودی عرب نے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے میں کلیدی کا کردار ادا کیا۔
کئی ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے کر کے اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔
امریکہ، چین، روس، یورپی یونین جیسے عالمی شراکت داروں سے فلسطین پر پالیسی بات چیت کی۔
نارملائزیشن (تعلقات کی بحالی) کا انکار
سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق نہیں دیا جاتا، اسرائیل سے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔‘
یہ بات ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی کئی انٹرویوز میں کہی ہے۔