پاکستان اور چین کے تعلقات رواں برس 74 برس کا سفر مکمل کر چکے ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد صرف رسمی سفارتی رابطوں تک محدود نہیں، بلکہ گہرے، پائیدار اور کثیرالجہتی تعلق کی صورت درخشاں ہیں اور دنیا انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
21 مئی 1951 کو پاکستان نے عوامی جمہوریہ چین کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور ایسا کرنے والا پہلا مسلم ملک بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس تاریخی فیصلے نے ایک ایسے تعلق کا آغاز کیا، جو وقت کے ساتھ اعتماد، ہم آہنگی اور باہمی مفادات پر مبنی شراکت داری میں بدل گیا۔
پاکستان اور چین کی دوستی محض دوطرفہ تعلقات کا نمونہ یا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح اصولی سفارت کاری، استقامت اور مشترکہ وژن دیرپا تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
آج یہ تعلق ایک ایسے مقام پر کھڑا ملتا ہے، جہاں یہ دنیا بھر میں باہمی احترام، تعاون اور قیادت کے استعارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جب دنیا میں بے یقینی چھائی ہو اور جنوبی ایشیا جیسے خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہو، وہاں چین کا نپا تلا، پرامن اور خاموش سفارتی انداز خاص اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔
1951 میں جب پاکستان اور چین کے تعلقات کا آغاز ہوا، اس وقت عالمی سیاست سرد جنگ کی لپیٹ میں تھی اور مغربی طاقتیں چین کے خلاف صف آرا تھیں۔ ایسے میں پاکستان کا یہ قدم دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی پہلی اینٹ ثابت ہوا۔ 1963 میں سرحدی معاہدہ اور 1965 کی پاکستان-انڈیا جنگ کے دوران چین کی اخلاقی و سفارتی حمایت نے اس رشتے کو مزید گہرا کر دیا۔
پاکستان اور چین کی دوستی کو دونوں ممالک میں ’آسمان سے بلند اور سمندر سے گہری‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ محض ایک سفارتی جملہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہر عالمی اور علاقائی بحران میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی چین کے بنیادی قومی مفادات کی بھرپور حمایت کی۔
1970 کی دہائی کے بعد سے چین نے پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جے ایف-17 تھنڈر طیارے کی مشترکہ تیاری، گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک (چین-پاکستان اقتصادی راہداری) جیسے منصوبے اس تعلق کی ٹھوس مثالیں ہیں۔
سی پیک نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے نیا در کھول رہا ہے، بلکہ پورے خطے میں تجارتی روابط کو فروغ دے رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالیہ برسوں میں تعلیم، ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی طالب علم چین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ کرونا وبا کے دوران چین نے پاکستان کو ویکسین کی فراہمی میں سب سے آگے رہ کر دوستی کا حق ادا کیا۔
عالمی سیاست میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے قابل اعتماد ساتھی رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان اور چین کی یکجہتی نمایاں ہے۔
چین مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان ’ون چائنا پالیسی‘ کا پابند ہے۔
74 برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان اور چین کا رشتہ وقت کی کسوٹی پر پورا اترا ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی سیاست، خطے میں چیلنجوں اور اندرونی معاشی مشکلات کے باوجود یہ دوستی آج بھی ایک روشن مثال ہے۔ آنے والے برسوں میں سی پیک اور دیگر شعبوں میں تعاون کے نئے امکانات اس دوستی کو مزید وسعت دیں گے۔
پہلگام واقعے کے بعد جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ چار روزہ جنگ کے بعد سیزفائر تو ہو گیا ہے مگر پاکستان اور انڈیا، دونوں ایٹمی قوتیں، ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ معمولی سی چنگاری کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
اس تمام تر بحران میں چین نے ایک مرتبہ پھر سادہ مگر موثر انداز میں سفارتی کردار ادا کیا۔ پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستان اور انڈیا دونوں کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔
ان کا پیغام واضح تھا کہ کشیدگی کو کم کیا جائے، بات چیت کی جائے اور تشدد سے گریز کیا جائے۔ چین کی سفارت کاری کا یہ انداز نیا نہیں۔ چین ماضی میں بھی ایسے مواقع پر ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے مگر اس بار حالات زیادہ نازک ہیں اور عالمی برادری کی نظریں اس خطے پر جمی ہوئی ہیں۔
پاکستان اور انڈیا ایک ایسے شکوک و شبہات کے دائرے میں قید ہیں جہاں ہر مصالحتی اقدام کو فریب اور ہر خاموشی کو خطرہ سمجھا جاتا ہے مگر اس کے برعکس، دونوں ملکوں کے عوام اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جنگیں نہ پالیسی سازوں کے بیانیوں سے لڑی جاتی ہیں، نہ ٹیلی ویژن سکرینوں پر، بلکہ اِن کی اصل قیمت تو عوام کو چکانی پڑتی ہے۔
پاکستان-انڈیا تناؤ کے پیچھے ایک اور حساس معاملہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور وہ پانی کا مسئلہ ہے۔
دریائے سندھ کے پانی پر کس ملک کا کتنا حق ہے، اس حوالے سے 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ کیا گیا۔ ایک طویل عرصے تک یہ معاہدہ سرحد پار پانی کے انتظام کا کامیاب ماڈل سمجھا جاتا تھا مگر اب انڈیا کے بعض یکطرفہ اقدامات نے اس معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں معاہدے کی کچھ شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے پاکستان میں ماہرین اور پالیسی سازوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان کی زراعت، توانائی اور پانی کی فراہمی کا انحصار مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر ہے۔ اگر ان دریاؤں کے بہاؤ میں خلل آیا تو یہ ایک شدید انسانی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقے پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق زیادہ جامع اور ازسرنو جائزہ لینے کی حمایت کر رہے ہیں۔ سیز فائر پر عمل درآمد، معطل شدہ ہاٹ لائنز کو دوبارہ فعال کرنا، سفارتی مشنز کو دوبارہ کھولنا اور سب سے اہم اور بامعنی بات چیت کا دوبارہ آغاز ضروری ہے۔
انڈیا کی جارحانہ پالیسی اور وزیراعظم نریندر مودی کے ’نیو نارمل‘ کے بیان نے خطے کو بےیقینی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
اس نازک دور میں پاکستان کو توقع ہے کہ چین ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس کی پشت پناہی اور دست گیری کے لیے موجود ہو گا، جیسے وہ پچھلے 74 سال سے موجود رہا ہے۔
سید علی نواز گیلانی تجزیہ کار اور پاکستان چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا شاخ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل ([email protected]) رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔