اے کے ڈی سکیورٹیز معاشی اکائیوں کو اکٹھا کرنے اور اس پر تجزیہ کرنے والا ادارہ ہے، اس ادارے کے مطابق پاکستان کی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (کسی بھی ملک میں تمام اشیا سے پیداوار کی کل مارکیٹ قیمت) پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 400 ارب ڈالر کراس کر گئی ہے۔
اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد پاکستان جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی 400 ارب ڈالر کی بڑی معیشتوں میں شامل ہو گیا ہے۔
دنیا کے وہ ممالک جن کی جی ڈی پی 400 ارب ڈالر سے 500 ارب ڈالر کے درمیان ہے، ان میں ملائیشیا، ایران، ڈنمارک، ویتنام، فلپائن، بنگلہ دیش، اور ناروے شامل ہیں، جبکہ پاکستان اب دنیا کے 40 بڑے جی ڈی پی ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
تاہم ان اعدادوشمار میں ردو بدل ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ 2024 کے اعدادوشمار ہیں۔
جی ڈی پی کے ساتھ ساتھ اے کے ڈی سیکیورٹیز کمپنی کے مطابق فی کس آمدنی بھی ملکی تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جو 1824 امریکی ڈالر (تقریباً پانچ لاکھ 10 ہزار روپے) ہے۔
پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے گذشتہ روز اجلاس میں رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی 2.68 فیصد کے ساتھ بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے، جبکہ رواں مالی سال میں ملک کی معیشت کا کل حجم 411 ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔
گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کسی بھی ملک میں موجود تمام اشیا کی پیداوار حاصل مجموعی مالیت کو کہا جاتا ہے، زیادہ تر ایک سال کی مدت کے لیے یہ اعدادوشمار نکالے جاتے ہیں۔
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 1.37 فیصد اور دوسرے سہ ماہی میں 1.54 فیصد رہی، جبکہ رواں مالی سال کی مجموعی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.68 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی جی ڈی پی 2026 میں 3.6 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے۔
نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بعض اہم فصلوں میں پہلی سہ ماہی میں اضافے سے جی ڈی پی میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا، لیکن دوسری سہ ماہی میں اہم فصلوں کی پیداوار میں مزید کمی سے بڑھوتری -7.65 سے کم ہو کر -12.09 تک گر گئی ہے۔
اہم فصلوں کے علاوہ باقی فصلوں کی بڑھوتری میں چار فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جس میں آم اور پیاز شامل ہیں، جبکہ ماہی گیری، جنگلات، اور لائیو سٹاک کے شعبوں میں بہتری دیکھی گئی ہے۔
اہم فصلوں کی بات کی جائے تو رواں مالی سال میں 13 فیصد کمی متوقع ہے، جس میں گندم کی پیداوار 31.81 ٹن سے 28.98 ٹن تک کم ہونے کی توقع ہے۔
اسی طرح چاول کی پیداوار 9.86 ٹن سے کم ہو کر 9.72 ٹن تک گرنے کی توقع ہے، جبکہ گنے، کپاس، اور مکئی کی فصل میں بھی کمی متوقع ہے۔
تاہم رواں مالی سال کی شرح نمو 2.68 ہونے میں زیادہ کردار صنعت اور توانائی کے شعبوں میں بڑھوتری کی وجہ سے ہے، کیونکہ اعدادوشمار کے مطابق صنعت کے شعبے میں 4.77 فیصد اور گیس، بجلی اور پانی کے شعبے میں 28 فیصد سے زائد بڑھوتری متوقع ہے۔
دوسری جانب جنوبی ایشیا میں شامل انڈیا کی سالانہ فی کس آمدنی تقریباً 2400 ڈالر (تقریباً چھ لاکھ 72 ہزار روپے) ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی سالانہ فی کس آمدنی تقریباً 2500 ڈالر (تقریباً سات لاکھ روپے) ہے۔
جی ڈی پی فی کس آمدنی کسی بھی ملک کے شہریوں کی معاشی حالات اور معیارِ زندگی ناپنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یعنی جتنی فی کس آمدنی زیادہ ہوگی، اسی حساب سے معیارِ زندگی شہریوں کا بہتر ہوگا۔
ورلڈ بینک کے 2024 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ جی ڈی پی امریکہ کی تقریباً 27 کھرب ڈالر ہے، جبکہ دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی جی ڈی پی تقریباً 18 کھرب ڈالر ہے۔
ایشیا ممالک کی بات کی جائے تو ورلڈ بینک کے مطابق انڈیا جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، جس کا جی ڈی پی کا کل حجم تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔
پاکستان کی جی ڈی پی گذشتہ مالی سال 2023-24 میں 372 ارب ڈالر تھی، جبکہ 2016 اور 2022 کے درمیان سالانہ جی ڈی پی کا حجم 300 ارب ڈالر سے 376 ارب ڈالر کے درمیان تھا۔
تاہم امریکہ کی لوا سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے مطابق فی کس جی ڈی پی کو کسی ملک کے شہریوں کی معیارِ زندگی ناپنے کے لیے واحد اکائی نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ جی ڈی پی میں انفارمل (جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا) معاشی سرگرمیاں شامل نہیں کی جاتیں۔
پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافہ: بہتر معیشت کی علامت؟
شکیل احمد رامی ماہرِ معاشیات اور ایشیا انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سربراہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جی ڈی پی کسی بھی ملک کی معیشت کو سمجھنے کے لیے ایک بہتر اکائی ہے۔
گو کہ شکیل کے مطابق جی ڈی پی کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ شہریوں میں بعض کا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے اور بعض کو کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ملتے، لیکن مجموعی طور پر جی ڈی پی کو اسی حساب سے نکالا جاتا ہے۔
امریکہ کی مثال دیتے ہوئے شکیل رامی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ امریکہ کی جی ڈی پی 29 کھرب سے اوپر ہے، لیکن ان پر قرضوں کا حجم 36 کھرب تک ہے، پھر بھی وہ جی ڈی پی کے لحاظ سے ایک مضبوط معیشت ہے۔
انہوں نے بتایا، ’امریکہ کے پاس بطور ریاست پیسے کم ہیں، لیکن وہاں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں موجود ہیں جو ملک کی جی ڈی پی کے اضافے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، بجائے اس کے کہ وہاں اب تین کروڑ 60 لاکھ سے زائد لوگ بھی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔‘
جی ڈی پی میں شکیل کے مطابق مضبوط معیشتوں میں پیسہ اکثر چند لوگوں کے پاس ہوتا ہے، جیسے انڈیا اور پاکستان میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں، لیکن جی ڈی پی اگر بڑھ رہی ہے تو اس کو کسی ملک کی معیشت کی مضبوطی کے لیے ایک اہم اکائی سمجھا جاتا ہے۔
فی کس آمدنی کے حوالے سے شکیل رامی نے بتایا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں فی کس آمدنی (سالانہ کسی بھی ملک میں فی شہری کی اوسط آمدنی) بڑھی ہے، جو بہتری کی علامت ہے۔
تاہم شکیل رامی کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا، کیونکہ بعض کے پاس 400 ڈالر، بعض کی سالانہ آمدنی 200 ڈالر ہوگی، اور اسی حساب سے مجموعی اعدادوشمار کو نکالا جاتا ہے۔
پاکستان کے نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعدادوشمار پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل رامی نے بتایا کہ اعدادوشمار میں جی ڈی پی کی شرح نمو تو بڑھی ہے، لیکن اب آگے یہ دیکھا جائے گا کہ یہ کیسے بڑھی ہے۔
انہوں نے بتایا، ’اہم فصلیں، زراعت، صنعت سمیت دیگر شعبوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہیں، تو ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو کیسے بڑھی ہے، اس کو پرکھنا پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ میں ماہرِ اقتصادیات ہیں اور پاکستان کے معاشی حالات پر مختلف تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کا رواں سال یہ سوچ تھی کہ جی ڈی پی کی شرح نمو چھ فیصد تک بڑھائی جا سکے، لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔
تاہم ڈاکٹر ناصر اقبال کے مطابق ابھی جو پروجیکٹ کیا گیا ہے، تو شاید شرح نمو رواں سال رہے، لیکن ملک اس طرح نہیں بڑھ رہا ہے، البتہ کچھ جگہوں پر ہم نے کنٹرول کیا، جیسے ایکسچینج ریٹ اور پھر آئی ایم ایف سے قرضہ بھی ملا۔
انہوں نے بتایا، ’ہماری تعمیرات کی صنعت اور باقی صنعتیں نہیں بڑھ رہیں، تو اسی وجہ سے ابھی جو شرح نمو ہے، وہی رہنے کی توقع ہے، لیکن کسی ملک کا ٹریک پر ہونا اہم ہے، جو پاکستان اب نظر آ رہا ہے، کیونکہ آنے والے بجٹ میں ٹیکس وغیرہ کے معاملات کو دیکھا جائے گا۔‘
جی ڈی پی کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ عالمی سطح پر جی ڈی پی ایک اہم اکائی ہے، جو قابلِ قبول ہے۔ اس کے علاوہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس، غربت کی اکائی یا دیگر بھی ہیں، لیکن جی ڈی پی کو اہم اور قابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر کے مطابق، ’پاکستان کے لیے بنیادی مسئلہ انفارمل معیشت ہے، اور اگر اس پر پاکستان فوکس کرے تو شاید ہم مڈل انکم ممالک تک پہنچ جائیں۔‘
فی کس آمدنی کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ حقیقت یہی ہے کہ ہماری فی کس آمدنی نہیں بڑھ رہی، اور گذشتہ تین سالوں میں جو مہنگائی ہم نے دیکھی ہے، اسی وجہ سے فی کس آمدنی رکی ہوئی ہے۔
تاہم ڈاکٹر ناصر کے مطابق پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی فی کس آمدنی اب بھی بہت کم ہے۔