پنجاب میں سیلاب سے 13 لاکھ افراد بے گھر: صوبائی حکام

پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں درجنوں دیہات زیرِ آب آچکے ہیں، جبکہ اس سے قبل نارووال اور سیالکوٹ کے علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے، جو انڈیا کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔

تین ستمبر 2025 کو صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں دریائے ستلج کے پانی کی سطح میں اضافے کے بعد سیلاب سے متاثرہ ایک شخص اپنے جزوی طور پر ڈوبے گھر کے باہر کھڑا ہے (فاروق نعیم / اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تباہ کن سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر انخلا جاری ہے اور گذشتہ 48 گھنٹوں میں مزید تین لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ اس طرح بے گھر ہونے والوں کی تعداد 13 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جبکہ تباہ شدہ مکانات اور کھیتوں کے مالکان کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات انڈیا کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ سیلابی انتباہات کے بعد کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں درجنوں دیہات زیرِ آب آچکے ہیں، جبکہ اس سے قبل نارووال اور سیالکوٹ کے علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے، جو انڈیا کی سرحد کے قریب واقع ہیں۔

حکام بڑے شہروں کو بچانے کے لیے دریا کے اوورفلو کو کھیتوں کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پنجاب کی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی اور بچاؤ کی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔

پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ ہزاروں ریسکیو اہلکار کشتیوں کے ذریعے امدادی کاموں میں مصروف ہیں جبکہ فوج بھی تعینات کی گئی ہے تاکہ متاثرہ دیہات سے لوگوں اور مویشیوں کو نکالا جا سکے۔

عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ انڈیا نے بدھ کی صبح سفارتی ذرائع سے پاکستان کو نیا سیلابی انتباہ جاری کیا۔ یہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں دوسرا الرٹ تھا، جو انڈیا میں شدید بارشوں اور ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد جاری ہوا۔

انہوں نے کہا کہ راوی، چناب اور ستلج دریا میں بالائی علاقوں سے پانی کے اخراج اور موسلادھار بارشوں کے باعث بلند سیلابی صورت حال ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ریسکیو ٹیمیں چھتوں پر پھنسے افراد کو ڈھونڈنے کے لیے ڈرونز بھی استعمال کر رہی ہیں۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے کے مطابق اب تک صوبے کے 33 ہزار دیہات میں 33 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے اور جن لوگوں کے گھر اور کھیت تباہ ہوئے ہیں، انہیں پنجاب حکومت معاوضہ دے گی۔

انڈین پنجاب میں بھی لینڈ سلائیڈز اور سیلاب کے باعث کم از کم 29 اموات ہو چکی ہیں، جہاں تین کروڑ سے زائد افراد آباد ہیں۔

سیلاب متاثرین کے لیے خیمہ بستیوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے اور خوراک سمیت دیگر اشیائے ضرورت فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم کئی متاثرین نے حکومتی امداد کی کمی کی شکایت کی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈیم ایم اے) کے مطابق تقریباً 40 ہزار افراد ریلیف کیمپوں میں ہیں جبکہ باقی کہاں ہیں اس بارے میں واضح نہیں ہے۔

مظفرگڑھ کے قریب شیر شاہ گاؤں کے 54 سالہ کسان نور محمد نے کہا کہ انہیں کوئی امداد نہیں ملی۔

انہوں نے اونچی جگہ سے اپنا ڈوبا ہوا گاؤں دیکھتے ہوئے کہا: ’کئی روز سے جاری اس صورت حال سے تنگ آ کر میں نے اپنے خاندان کو قریبی رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا ہے۔‘

ایک اور بے گھر شخص ملک رمضان نے کہا کہ انہوں نے ریلیف کیمپ میں جانے کے بجائے اپنے ڈوبے ہوئے گھر کے قریب رہنے کو ترجیح دی۔

انہوں نے کہا: ’کیمپوں میں رہنے کی سہولتیں موجود نہیں ہیں، کھانا وقت پر نہیں ملتا اور ہمارے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے بدھ کو مظفرگڑھ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ریلیف کیمپوں میں بے گھر خاندانوں سے ملاقات کی۔ ان کا یہ دورہ انڈیا کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ ترین سیلابی انتباہ کے چند گھنٹوں بعد ہوا۔

گذشتہ ہفتے کے سیلاب نے بنیادی طور پر قصور، بہاولپور اور نارووال کے اضلاع کو متاثر کیا تھا، جہاں پانی کے سیلابی ریلے نے انڈیا کی سرحد کے قریب واقع سکھوں کے مقدس مقام گردوارہ ’گورو نانک‘ کو بھی ڈبو دیا تھا۔ تاہم حکام نے کہا کہ پانی اترنے اور صفائی کے بعد گردوارہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

پاکستان نے گذشتہ ماہ بڑے پیمانے پر انخلا کا آغاز کیا تھا، جب انڈیا نے ڈیموں سے پانی چھوڑا تھا، جس سے نشیبی سرحدی علاقے زیرِ آب آگئے۔

یہ حالیہ سیلاب 2022 کے بعد سب سے بدترین قرار دیا جا رہا ہے، جب ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے تباہ کن سیلاب میں پاکستان میں تقریباً 1,700 اموات ہوئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان