آپٹکس کا لفظ صدیوں سے بصارتی زاویوں کے لیے استعمال ہوتا رہا، یہ ایک سائنسی لفظ ہے جس کا سستی شہرت اور سیاسی چھچھور پن سے دور دور تک لینا دینا نہیں تھا، لیکن جیسے جدید دور کی ایجادات نے ہر تیرے میرے کو سائنٹسٹ پرو میکس بنا دیا ہے، ایسے ہی سیاست دان اور ان کے چھوٹے ہرکارے آپٹکس اور آپٹیکل ایلوژن کا بھرپور استعمال کر کے سیاسی سائنس دان بن گئے ہیں۔
اب سیاست میں آپٹکس کا کھیل اتنا سنجیدہ ہو گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں مثبت آپٹکس حاصل کرنے کے لیے پوری ٹیمیں رکھتی ہیں۔ انہیں میڈیا مینیجمنٹ ٹیم کہا جاتا ہے۔
سیاست میں آپٹکس کے ’کھیل‘ سے مراد نظر آنا، موضوع سخن بنے رہنا، سب کا فیورٹ نظر آنا یا پھر سرگرم دکھائی دینا ہے۔ چاہے اندر خانے کچھ بھی ٹھوس نہ ہو لیکن آپٹکس یہ دکھاتے ہیں کہ سب کچھ ایک دم سولڈ ہو رہا ہے۔
مثلاً پلاننگ کے عین مطابق لیڈر اپنے شاندار لباس کی پروا کیے بغیر گندے میلے کچیلے شہری سے ملے، اس کا شکوہ سنے اور اسے گلے سے لگائے، رخسار پہ ایک آنسو ڈھلکے اور یہ جذباتی منظر پورے زوم اِن، زوم آؤٹ کے ساتھ ریکارڈ کیا جائے اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس دکھ بھری ویڈیو کو ریلیز بھی کر دیا جائے۔
اب بھاڑ میں جائے اس غریب کا اصل مدعا، اس میلے کچلے سائل کی جو التجا تھی وہ سنی گئی یا نہیں یہ بھی اہم نہیں۔
آپٹکس کا کھیل یہ ہے کہ دیکھنے والوں کا دل وہ ایک آنسو پگھلا دے۔ پھر ہم آپ جیسے پگلے دیوانوں کے لیے سوشل میڈیا کی ہیڈ لائنز بنیں، سندھ کی دھی، پنجاب کی بیٹی یا پھر بلوچوں کا ہمدرد یا پختونوں کا بیٹا!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی اپنی زندگیوں میں الجھے ہوئے عوام کی رائے بنانے کے لیے سیاست دان ہر کام پورے حساب سے کرتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ سیاست ان کا پیشہ ہے اور مثبت سیاسی آپٹکس حاصل کرنا ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔
آپٹکس یہ نہیں کہ سیلاب آیا، آپ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر لیا، ایک ایک پیکٹ آٹا تقسیم کیا اور مختصر سی خبر جاری کر دی گئی، میڈیا میں آپٹکس اس خبر کو بھی نہیں ملیں گے کہ آئندہ سیلاب میں کم سے کم تباہی کے لیے پالیسی اور پلاننگ تیار کر لی گئی۔
آپٹکس کا ستم یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی اور ذمہ داران کا احتساب کہیں دور رہ جائے اور اصل خبر یہی ہو کہ آسمان سے بھیجا اوتار یعنی آپ کا درد مند لیڈر عوام میں گھل مل گیا۔
سیاسی آپٹکس کا اگلا درجہ پولیٹیکل آپٹکل ایلوژن ہے، اس پہ تو پوری پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے۔ یہ والا کرتب صرف پشتینی دھوکے باز ہی دکھا سکتے ہیں کیونکہ اس کے لیے میڈیا مینیجمنٹ کے ساتھ ساتھ ماسٹر بہروپیا ہونا بھی ضروری ہے۔
سیاست میں آپٹکل ایلوژن یہ ہے کہ سوائے سچ کے سب کچھ دکھایا جائے، سوائے کڑوی حقیقت کے میٹھی میٹھی گولیاں کھلائی جائیں، یہ بھیڑیے کو بھیڑ بنا کر پیش کرنے کا ہنر ہے۔ بلکہ یہاں سارا ہنر ہی پیشکش کا ہے۔
لیکن جو تازہ واردات ہمارے افسر شاہی کے ہرکارے کر رہے ہیں، پولیٹیکل آپٹکس کی دوڑ میں یہ نئے کھلاڑی ہیں۔
چلو سیاست دانوں کی تو مجبوری ہے کہ انہیں یہاں وہاں ماتھا ٹیکنے کے باوجود جانا بہرحال عوام کے پاس پڑتا ہے۔ ان کی مجبوری ہے کہ وہ گٹر کے ڈھکن سے لے کر خارجہ پالیسی تک اپنی کارکردگی کے خود ہی گن گائے۔ سیاست میں پوائنٹ سکورنگ، بیانیے کی جنگ، جذباتی رنگ بازی اور ٹیکنیکل نقشے بازی سب چلتی ہے۔
لیکن پاکستان کی سول سروس کے بابوں کی کیا مجبوری ہے کہ انہیں بھی معمول کے ہر سرکاری کام کے دوران ایک کیمرہ مین ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ کیمرہ مین بھی کیا ہے جیسے سیدھے شانے پہ بیٹھا فرشتہ جو صرف نیکی ہی نیکی رپورٹ کرتا ہے۔
سیاست دانوں کی آپٹکس کا گیم کسی اچھے ہدایت کار کی فلم جیسا ہوتا ہے کہ کہانی کتنی بھی کمزور سہی لیکن دیکھنے میں تو اچھی لگتی ہے۔ ادھر ڈی سی صاحب دکھا رہے ہیں کہ اپنے قیمتی سوٹ کی پروا کیے بغیر سیلابی ریلے میں چھلانگ لگا کر بکری کو بچا لیا۔ خود ہی بتائیں آپٹکس کس کو ملیں گے!
کارنیل یونیورسٹی کی ایک رپورٹ اشارہ کرتی ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص ویڈیوز اور تصاویر اب بڑے بیوروکریٹس سے لے کر چھوٹے چھوٹے عہدوں پہ بیٹھے افسران کو بھی شہرت کی طاقت کا ذائقہ چکھا رہے ہیں۔
عوام سے ان کا رشتہ اب صرف ایک سرکاری نوکر کا نہیں رہا۔ ایسا ان ممالک میں ہو رہا ہے جہاں کارکردگی کا کل پیمانہ زیادہ سے زیادہ آپٹکس ہیں۔
ہیرو بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا، کون ہے جو اپنی تعریف نہیں سننا چاہتا، کام کی ستائش ملے یہ چاہنا بھی کوئی جرم نہیں، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں وزرا سے لے کر چھوٹے چھوٹے افسران تک سب حکام روز نت نئی ویڈیوز ریلیز کریں، سامنے صرف آپٹکس کا کھیل کھیلا جائے تو اصل دکھڑا، اصل سوال کہیں پس منظر میں چلتی موسیقی بن جاتے ہیں۔
فیصلہ خود ہی کر لیں کہ اس بوریت بھرپور کلاسیکل راگ کو کون سننے گا؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔