جب اربوں کی لاگت سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا

کالا باغ ڈیم کی سائٹ آج کس حالت میں ہے، مشینری کی حالت کیا ہے اور مقامی لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کالا باغ ڈیم منصوبے کی اس وقت پورے ملک میں گونج سنائی دے رہی ہے لیکن آج وہاں جائیں تو ڈیم کی سائٹ دیکھ کر موہنجو داڑو کے کھنڈرات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

جہاں ڈیم بننا تھا وہ جگہ سنسان پڑی ہے، ڈیم کے لیے نصب کی گئی بھاری مشینری زنگ آلود ہو کر زمین میں دھنس رہی ہے، ملازموں کے لیے بنے کوارٹر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کھڑکیوں کے شیشے بکھرے پڑے ہیں اور دفتر تو ہیں مگر عملہ ندارد۔ درازوں میں فائلیں رکھی ہیں مگر وہ بوسیدہ حالت میں۔

وہ بڑاا منصوبہ جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا، اس وقت وہاں صرف چار چوکیدار ہی باقی رہ گئے ہیں۔  

کالا باغ ڈیم کا تعمیراتی مقام میانوالی کے گاؤں ’پیر پہائی‘ کے پہاڑوں میں واقع ہے جہاں قدرتی طور پر پہاڑوں کے درمیان پیالہ نما جگہ موجود ہے جو ڈیم کی تعمیر کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے جغرافیے کی وجہ سے سب سے پہلے انگریزوں نے یہاں پر ڈیم بنانے کا سوچا تھا۔  

آزادی کے بعد اس کے ڈیزائن اور فیزیبلٹی رپورٹوں پر کام ہوتا رہا، بالآخر 1978 میں جنرل ضیا الحق کے دور میں ورلڈ بینک کے تعاون سے اس پر عملی طور پر کام بھی شروع ہو گیا۔

تربیلا ڈیم کی کامیابی سے تکمیل کے بعد یہ پاکستان کا ایک اور بڑا منصوبہ ہونا تھا۔ اس مقصد کے لیے بھاری مشینری لائی گئی، افسران اور ملازمین کے لیے رہائشی کالونیاں تعمیر کی گئیں، کھیلوں کے میدان اور بینک تک قائم کیا گیا جہاں سے عملے کو تنخواہیں جاری ہوا کرتی تھیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کالا باغ ڈیم سے 4600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے اور بلاواسطہ یا بالواسطہ 50 ہزار سے زائد افراد کو روزگار مل سکتا ہے۔ تاہم اس منصوبے کی لاگت جو ابتدا میں پانچ ارب ڈالر تھی، اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کام شروع ہونے بعد جلد ہی سندھ کی طرف سے ڈیم کی مخالفت میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ ڈیم کی تعمیر سے اس کو ملنے والا پانی کم ہو جائے گا۔ پھر اس وقت کے صوبہ سرحد سے بھی اعتراض آ گیا کے ڈیم کی وجہ سے نوشہرہ اور صوابی کے زرخیز علاقے زیرِ آب آ جائیں گے اور سیم و تھور کا شکار ہو جائیں گے۔

کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیوں نے قراردادیں منظور کیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ان صوبوں کے لیے یہ منصوبہ سیاسی طور پر زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔

زبردست سیاسی مخالفت کی وجہ سے ورلڈ بینک نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اور آج یہ منصوبہ اربوں روپے کی لاگت آنے کے بعد کھنڈر کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ 

’اب اختیار جنرل عاصم کے پاس ہے، وہ چاہیں تو یہ ڈیم بن سکتا ہے‘

ضلع میانوالی کے گاؤں ڈھوک بھرتھال کے رہائشی علم دین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’کالا باغ ڈیم پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس سے نہ صرف بجلی سستی ہو گی بلکہ روزگار، ماحولیات اور خوش حالی بھی آئے گی۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’نواز شریف سے پرویز مشرف، اور عمران خان سے شہباز شریف تک سب حکمران کالا باغ ڈیم نہ بنا سکے۔ اب سارا اختیار جنرل عاصم منیر کے پاس ہے، وہ چاہیں تو یہ ڈیم بن سکتا ہے۔‘

73 سالہ سید اعجاز حسین شاہ نے، جنہوں نے ڈیم سائٹ پر دو سال کام کیا، انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ابتدا میں ڈیم کے لیے دھنکوٹ کے مقام کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن وہ جگہ موزوں نہ تھی، اس کے بعد پیر پہائی کا انتخاب کیا گیا۔

’اس وقت یہاں بڑی چہل پہل تھی، افسران کے لیے الگ کالونی اور مزدوروں کے لیے الگ کالونی بنی تھی۔ مگر اب یہ سب اجاڑ سا لگتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے یہ ڈیم کبھی نہیں بن پائے گا۔‘

ان کے  خیال میں کالا باغ ڈیم کے نقصانات نہیں بلکہ صرف فوائد ہیں اور اگر سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔

مقامی افراد کے بقول اگر ڈیم کی تعمیر سے گاؤں زیر آب آ بھی جاتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں، ’ہم کالا باغ ڈیم کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔‘

لیکن ڈیم کے سیاسی مخالفین اسے ’مردہ گھوڑا‘ یعنی ہمیشہ کے لیے ختم تنازع قرار دیتے ہیں لیکن وقتا فوقتا اس پر قومی سطح پر بحث چھر جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ