خیبر پختونخوا میں ٹک ٹاکرز کی گرفتاریاں: ’غیر اخلاقی‘ مواد کیوں مقبول ہے؟

پولیس کے مطابق عوامی شکایات پر صوابی، مردان، پشاور اور مانسہرہ سے ’غیر اخلاقی‘ مواد بنانے والے متعدد ٹک ٹاکرز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس نے صوبے کے مختلف اضلاع میں ایسے ٹک ٹاکرز کے خلاف کارروائیاں شروع کی ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ’غیر اخلاقی‘ اور ’غیر معیاری‘ مواد بنا رہے تھے۔

پولیس کے مطابق صوابی، مردان، پشاور اور مانسہرہ میں متعدد ٹک ٹاکرز کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں عوامی شکایات پر کی گئیں۔

صوابی پولیس کے ترجمان لیاقت خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چھ ستمبر کو ایک نوجوان ٹک ٹاکر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ لڑکیوں کے کپڑے پہن کر ’غیر اخلاقی‘ ویڈیوز بنا رہا تھا۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’فحش گانوں‘ پر ویڈیوز بنا کر وائرل کرتا تھا جس سے معاشرے پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

اسی ضلع میں پانچ ستمبر کو ایک اور ٹک ٹاکر کو بھی اسی نوعیت کے الزامات پر گرفتار کیا گیا جبکہ مانسہرہ پولیس نے ایک شخص کو ٹک ٹاک لائیو میں گالم گلوچ اور ’قابل اعتراض‘ حرکات کرنے پر حراست میں لیا۔

پولیس کے مطابق تمام گرفتار ٹک ٹاکرز نے اپنے بیانات میں ’غیر اخلاقی‘ بنانے کا اعتراف اور عزم کیا کہ کہ وہ آئندہ ایسی ویڈیوز نہیں بنائیں گے۔

ٹک ٹاک پر ’غیر معیاری‘ مواد کیوں مقبول ہے؟

پاکستان میں ٹک ٹاک صارفین کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ دنیا میں ٹک ٹاک صارفین کے حوالے سے ساتواں بڑا ملک ہے تاہم ماضی میں اس ایپ پر کئی بار پابندی بھی لگائی گئی اور عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئیں کہ ٹک ٹاک ’غیر اخلاقی‘ مواد کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔

ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے اور لائیو فیچر کے ذریعے کمائی ممکن ہے۔ کئی ٹک ٹاکرز کے مطابق جتنا زیادہ ’غیر معیاری‘ مواد ہوگا، اتنی ہی کمائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

پشاور کے معروف یوٹیوبر افسر افغان، جن کے فیس بک اور ٹک ٹاک پر 19 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں، کہتے ہیں کہ ’غیر معیاری مواد بنانا آسان ہے لیکن معیاری مواد کے لیے محنت، ریسرچ اور سوچ کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کچھ عرصہ ٹک ٹاک لائیو کیا جس سے روزانہ 30 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک آمدن ہوتی تھی۔ ’لیکن لائیو میں جس زبان اور حرکات کی ضرورت پڑتی تھی، وہ میں نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں نے لائیو چھوڑ دیا۔‘

ان کے مطابق: ’کمرے کے کسی کونے میں بیٹھ کر کچھ بھی کریں تو پیسے مل جاتے ہیں لیکن معیاری مواد کے لیے تعلیم، منصوبہ بندی اور محنت ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ لوگ معیاری مواد دیکھتے نہیں، بلکہ میں سیاحت، کلچر اور معلوماتی ویڈیوز بناتا ہوں اور لوگ اسے پسند بھی کرتے ہیں اور اس سے آمدن بھی ہوتی ہے۔‘

قانونی ماہرین کی رائے

سپریم کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اظہار رائے کی آزادی بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ ہے لیکن اس کی حدود بھی مقرر ہیں۔ ’کسی پبلک فورم پر قابل اعتراض یا فحش مواد پھیلانا نہ بین الاقوامی قوانین میں جائز ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین اور قوانین میں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں معیاری مواد بنانے اور اس کی تشہیر کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کہ مثبت مواد سے بھی کمائی ممکن ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل طارق افغان کے مطابق بعض حلقے پولیس کارروائیوں کو ’مورل پولیسنگ‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا مواد نوجوان نسل پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 294 کے تحت عوامی مقامات پر نازیبا الفاظ یا حرکات منع ہیں، چاہے وہ مزاح کے طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے قانون کا نفاذ وقت کی ضرورت بھی ہے۔‘

البتہ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ ملزمان کو صرف مقدمات میں الجھانے کے بجائے آگاہی کے ذریعے اصلاح کی جانی چاہیے۔ ’ان کے بیانات ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر ڈالنے کے بجائے بہتر یہ ہوگا کہ جرگوں یا کمیونٹی کی سطح پر آگاہی دی جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان