افغان طالبان کے سرکاری میڈیا کے مطابق عام سے لباس میں ملبوس اعلیٰ امریکی اہلکار نے ہفتے کی دوپہر کابل کے ارگ (صدارتی محل) میں طالبان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر اخوند سے ملاقات کی۔
اگرچہ افغان نیوز ایجنسی باختر نے اس ملاقات کو افغانستان کی موجودہ صورت حال اور افغانستان اور امریکہ کے درمیان سیاسی و اقتصادی تعاون کے امکانات پر مرکوز قرار دیا، لیکن دراصل یہ ملاقات افغانستان میں امریکی یرغمالیوں یا قیدیوں کے بارے میں تھی۔
غیر رسمی لباس میں ملبوس یہ امریکی اہلکار کوئی اور نہیں بلکہ ایڈم بوہلر تھے، جو ٹرمپ انتظامیہ کے یرغمالیوں کے لیے خصوصی نمائندے ہیں۔ سیاہ ٹوپی اور امریکی پرچم سے مزین بھوری جیکٹ میں ملبوس ایڈم کے ساتھ افغانستان کے لیے سابق امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔ اس غیرمعمولی لباس کے انتخاب کی وجہ تاہم واضح نہیں۔
افغان خبررساں ادارے بی این اے کے مطابق مذاکرات کے دوران ملا عبدالغنی برادر نے اپنے ملک میں اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے میں اپنی کامیابیوں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بدعنوانی اور منشیات کی کاشت ختم ہو چکی ہے، بے روزگاری کی شرح میں کمی آئی ہے، اور افغان کرنسی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم رہی ہے۔ انہوں نے بینکنگ کے شعبے میں بہتری، برآمدات میں اضافہ، اور بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے آغاز کا ذکر کیا۔
لیکن بیان میں افغانستان میں امریکی قیدیوں یا یرغمالیوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ایڈم بوہلر نے اپنی طرف سے قیدیوں کے معاملے پر بات کی اور دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی وکالت کی۔
امریکی ٹیم نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے بھی ملاقات کی۔
امریکی نیوز چینل سی بی ایس نے طالبان کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کے طور پر امریکی نمائندوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ایک معاہدے پر پہنچے ہیں۔
لیکن اس بارے میں نہ تو طالبان اور نہ ہی امریکیوں نے کسی معاہدے کی باضابطہ تصدیق کی ہے۔
اس بارے میں بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ دونوں ملک کے پاس ایک دوسرے کے کتنے لوگ قید ہیں، ان کی شناخت یا ان کی قید کی وجوہات اور حالات کیا ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے کابل میں ملاقات یا طالبان کے بیان میں بیان کردہ نتائج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایڈم بوہلر کے ساتھی زلمے خلیل زاد کے سفر کو امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک سہولت کار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
خلیل زاد کو بہت سے افغانوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، جو بار بار امریکہ کو ان پر بھروسہ کرنے یا ان کی رائے اور فیصلوں پر اعتماد نہ کرنے کی وارننگ دیتے آئے ہیں۔ دوحہ معاہدے کے حوالے سے ان کا کردار بہت سے افغانوں کی نظر میں ان کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ لوگوں نے تبصروں میں کہا کہ وہ صرف امریکی اہلکار اور طالبان اہلکاروں کے درمیان مترجم کی حیثیت سے کام کرتے نظر آئے ہیں لیکن ان کی پشتو زبان کی مہارت پر سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی افغانستان کے روزنامہ ’شہادت‘ نے جناب خلیل زاد کو 14 ستمبر کے اپنے تبصرے میں ’افغانستان کا خفیہ صدر‘ قرار دیا اور ان کی سرگرمیوں کو ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔ روزنامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ خلیل زاد بغیر ویزا کے افغانستان کا دورہ کرتے ہیں۔
اخبار نے مزید کہا کہ خلیل زاد کے پاکستان مخالف بیانات کی وجہ ان کی وہ کوشش ہے جس کے تحت وہ ایسے بیانات کے ذریعے بظاہر افغانوں میں اپنے مصبولیت بہتر کرنا چاہتے ہیں۔
روزنامے نے تو اس حد تک لکھ دیا کہ ’خلیل زاد افغانستان کے اگلے بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔‘
قیدی ترجیح
افغان وزارت خارجہ نے تاہم اس ملاقات پر زیادہ روشنی ڈالی اور اپنے ایک بیان میں کہا کہ فریقین ’خاص طور پر ایک دوسرے کے ممالک میں قید شہریوں کے بارے میں‘ مذاکرات کو جاری رکھنے پر متفق ہوئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں تاثر ہے کہ طالبان کے انسانی حقوق اور یرغمالیوں کے بارے میں بین الاقوامی وعدوں پر عمل درآمد کی سست روی پر مایوس ہے، جس نے اہم معدنیات یا وسیع تر تعلقات میں بہتری کے کی توقعات کو کمزور کر دیا ہے۔
محمود حبیبی، ایک افغان امریکی شہری، واشنگٹن کے مطابق سب سے نمایاں قیدی ہیں جن میں رہائی کے لیے طالبان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ لیکن یہ معاملہ خاص طور پر پیچیدہ ہے، کیونکہ طالبان ان کے بارے میں کہ وہ کہاں ہیں لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے حبیبی کی قید کو افغانستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی تلاش میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ انہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، تین سال بعد جب وہ کابل میں غائب ہوئے تھے۔
طالبان نے پچھلے سال محمود حبیبی کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے معاون محمد رحیم الافغانی کے بدلے تبادلے کی پیشکش کو مسترد کر دیا، جو گوانتانامو بے فوجی جیل میں آخری افغان ہیں۔
طالبان انتظامیہ کو، جو افغانستان میں 20 سال کے امریکی فوجی مداخلت کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئی، واشنگٹن تسلیم نہیں کرتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیرون ملک قید امریکیوں کی رہائی کو اپنی اولین ترجیحات میں سے ایک بنایا ہوا ہے اور وہ افغانستان، روس اور وینزویلا سے درجنوں افراد کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں۔
روئٹرز نے بتایا ہے کہ اس نے امریکی وزارت خارجہ اور وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے فوری طور پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
ٹرمپ نے اس مہینے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس سے واشنگٹن کو ایسے ممالک کو غلط قید کے لیے ریاستی سپانسر قرار دینے اور ان پر سزایں اور پابندیاں عائد کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
ایڈم بوہلر نے اس سے قبل اس سال مارچ میں کابل کا دورہ کیا اور امریکی قیدی جارج گلیزمن کو رہا کروا کر واپس لے گئے، جو 2022 میں افغانستان میں سیاح کی حیثیت سے آئے تھے لیکن گرفتار قید ہوگئے تھے۔
جنوری میں امریکہ نے افغانستان میں قید دو امریکی شہریوں کے بدلے ایک افغان کو رہا کیا جسے امریکی عدالت نے منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کے الزامات میں مجرم قرار دیا تھا۔
ایڈم بوہلر کا پس منظر دلچسپ ہے۔ انہیں نجی شعبے میں ایک جدید رہنما کے طور پر وسیع پیمانے پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی کامیاب بڑی کمپنیوں کی بنیاد رکھی اور ان کے سی ای او رہے۔
ایڈم نے بیٹری وینچرز میں بھی کام کیا، جو ایک عالمی ٹیکنالوجی پر مبنی وینچر کیپیٹل فرم ہے جس کے پاس 2 ارب ڈالر سے زیادہ کا انتظام ہے اور جو بوسٹن، سلیکان ویلی، لندن اور اسرائیل میں دفاتر رکھتی ہے۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل میں سافٹ ویئر اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری پر بھی کام کیا ہے۔
وہ نیو اورلینز، ایل اے میں اپنی بیوی شیرا اور اپنے چار چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔