برطانوی وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار نے ٹرین پر لیپ ٹاپ کھلا چھوڑ کر خفیہ معلومات افشا کر دیں۔ یہ افغان ڈیٹا لیک کا ایک اور واقعہ ہے، جس کا دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا ہے۔
ان نئی دستاویزات سے برطانوی حکومت کی ایسی متعدد غلطیاں سامنے آئی ہیں، جن کی وجہ سے نجی معلومات غلط ہاتھوں میں پہنچ گئیں۔
طالبان کے ڈر سے فرار ہو کر برطانیہ آنے کے خواہش مند افغان شہریوں کی درخواستیں سنبھالنے والے یونٹ کی ایک سرکاری دستاویز، جس میں درجنوں ڈیٹا لیکس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، میں بتایا گیا کہ مارچ 2023 میں پیش آنے والے ایک واقعے میں ’ٹرین میں رکھے لیپ ٹاپ کی سکرین کھلی حالت میں نظر آ رہی تھی۔‘
ریکارڈ کے مطابق اگست 2023 میں افغان شہریوں سے متعلق حساس اور ذاتی نوعیت کی ایک ای میل غلطی سے سول سروس سپورٹس اینڈ سوشل کلب کو بھیج دی گئی، جو سول سروس اور عوامی شعبے کے ملازمین کا ایک گروپ ہے اور اس کے ایک لاکھ 40 ہزار ارکان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ نئی تفصیلات وزارتِ دفاع کے اس تباہ کن ڈیٹا لیک کے بعد سامنے آئی ہیں جس نے ممکنہ طور پر ہزاروں افغان شہریوں کو، جنہوں نے برطانوی افواج کی مدد کی تھی، طالبان کے خطرے سے دوچار کر دیا۔
اگست 2023 کے اس بڑے ڈیٹا لیک کے نتیجے میں ہزاروں افغان شہریوں کو خفیہ طور پر برطانیہ منتقل کیا گیا۔ یہ معاملہ رواں برس کے اوائل میں اس وقت منظرِ عام پر آیا، جب دی انڈپینڈنٹ اور دیگر میڈیا اداروں نے اس پر عائد غیرمعمولی سینسرشپ ختم کروانے کے لیے قانونی جدوجہد کی۔
یہ واقعات ان 49 ڈیٹا لیکس میں شامل ہیں جو پچھلے چار سالوں کے دوران اس یونٹ میں ہوئے، جو طالبان سے فرار ہو کر برطانیہ آنے والے افغانوں کی درخواستوں کو نمٹاتا ہے۔ ان میں ای میلز کا غلط لوگوں کو بھیجا جانا، غیر محفوظ نظاموں کا استعمال اور غلط اہلکاروں کی معلومات تک رسائی شامل ہے۔
مئی 2024 میں ذاتی معلومات کے ایک واقعے سے متعلق فیصلہ ایک غلط شخص کو بھیج دیا گیا، جبکہ جون 2023 میں افغان خاندانوں کے بحفاظت برطانیہ پہنچنے پر بھیجا جانے والا ’خوش آمدید کا خط‘ غلط ای میل پتے پر چلا گیا۔
دیگر مثالوں میں ای میلز کا غلط لوگوں کو بھیجا جانا، افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اےآر اے پی) سکیم کے ایک درخواست گزار کو ذاتی ای میل ایڈریس سے پیغام بھیجنا (جب بھیجنے والا سرکاری اکاؤنٹ سے لاگ آؤٹ ہو چکا تھا)، اعلیٰ درجے کے خفیہ مواد کا غلطی سے ڈاؤن لوڈ ہونا اور عہدیداروں کی جانب سے ذاتی طبی معلومات تک غلط رسائی حاصل کرنا شامل ہیں۔
ستمبر 2023 میں پانچ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جن میں لوگوں نے وٹس ایپ کے ذریعے ذاتی معلومات شیئر کیں۔ اسی سال فروری میں وزارتِ دفاع نے ایک پرواز کے مسافروں کی فہرست تک نادانستہ رسائی کا واقعہ بھی ریکارڈ کیا۔ وزارتِ دفاع کی چارٹرڈ پروازیں عام طور پر افغان شہریوں کو برطانیہ پہنچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
ان ڈیٹا لیکس کی تفصیلات رواں ماہ وزارتِ دفاع کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھیجے گئے خط میں سامنے آئیں۔
وزارتِ دفاع کے اعلیٰ سول اہلکار ڈیوڈ ولیمز نے ارکانِ پارلیمان کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ افغان درخواست گزاروں کی ذاتی معلومات غلط لوگوں کو بھیجی گئیں اور بعض ملازمین نے ان تک غلطی سے رسائی حاصل کی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ فروری 2022 کے لیک میں وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار نے غلطی سے33 ہزار سطور پر مشتمل ایک سپریڈشیٹ ای میل کر دی تھی، جو ’ایسے مناسب نظاموں کی عدم موجودگی‘ کے باعث ممکن ہوا، جو اس طرح کی غلطیوں کو روک سکیں یا ان کے اثرات کو کم کر سکیں۔
ڈیوڈ ولیمز نے تسلیم کیا کہ وزارتِ دفاع کے پاس محفوظ کیس ورک یا رابطہ مینجمنٹ سسٹم موجود نہیں تھا۔
اے آر اے پی سکیم اپریل 2021 میں طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد شروع کی گئی تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جا سکے جنہیں برطانوی افواج کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے اپنی جانوں کا خطرہ لاحق تھا۔ یہ سکیم جولائی میں بند کر دی گئی۔
یہ پروگرام مسلسل ناقص ڈیٹا سکیورٹی سے متعلق انکشافات کی زد میں رہا ہے، جس نے ممکنہ طور پر برطانیہ کے افغان اتحادیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔
وزارتِ دفاع کے اپنے ریکارڈ کے مطابق، پچھلے چار سالوں میں برطانیہ میں پناہ کے خواہش مند افغانوں کے معاملات سنبھالنے والے یونٹ میں پیش آنے والے 49 الگ الگ ڈیٹا لیکس میں سے پانچ اتنے سنگین تھے کہ انہیں انفارمیشن کمشنر آفس کو رپورٹ کرنا پڑا۔
انفارمیشن کمشنر آفس کو رپورٹ کیے گئے واقعات میں فروری 2022 کا سپریڈشیٹ لیک، بلائنڈ کاربن کاپی (بی سی سی) ای میلز کی ناکامی سے پیش آنے والے کئی لیکس اور مائیکروسوفٹ فارم لنک سے متعلق ایک لیک شامل ہے۔
’بلائنڈ کاربن کاپی‘ والے واقعات کے نتیجے میں انفارمیشن کمشنر آفس نے وزارتِ دفاع پر تین لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا کیونکہ برطانیہ منتقلی کے خواہشمند افراد کی ذاتی معلومات افشا ہو گئیں۔ ایک واقعے میں 265 افراد کی تفصیلات غلطی سے ظاہر ہوئیں۔
2022 کے سپریڈشیٹ لیک، جس میں اے آر اے پی سکیم کے 18,700 درخواست گزاروں کا ڈیٹا شامل تھا، پر انفارمیشن کمشنر آفس نے یہ کہتے ہوئے باضابطہ تحقیقات شروع نہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ ایسا کرنے سے دیگر ترجیحی معاملات کے وسائل متاثر ہوں گے۔
سائنس، اختراع اور ٹیکنالوجی کمیٹی کی چیئر ڈیم چی اونورا نے کہا: ’گذشتہ ہفتے ہماری کمیٹی نے انفارمیشن کمشنر سے افغان ڈیٹا لیک کے اثرات پر بات کی۔ یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ انفارمیشن کمشنر آفس اور حکومتیں بہتر معیار کے ڈیٹا انتظامات یقینی بنانے میں ناکام رہیں، جس کے نتیجے میں یہ ڈیٹا لیک بار بار ہوتے رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا:’حساس معلومات کے اس غلط استعمال کے باعث یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ حکومت کے مجوزہ ڈیجیٹل شناختی کارڈز منصوبے سے ڈیجیٹل سکیورٹی کے مزید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔‘
وزارتِ دفاع اپنی سالانہ رپورٹ میں ہر سال انفارمیشن کمشنر آفس کو بھیجے گئے ڈیٹا واقعات اور ان سے متاثرہ افراد کی تعداد درج کرتی ہے اور ہر واقعے کو نقصان کے اندازے کی بنیاد پر رپورٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
وزارتِ دفاع نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
© The Independent
 
             
              
 
           
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
	             
	             
	             
	             
	             
                     
                     
                     
                    