پہلی عالمی جنگ کے خطوط آسٹریلوی ساحل پر دریافت

یہ خطوط ان دو آسٹریلوی فوجیوں نے لکھے جو انہیں تحریر کرنے کے تھوڑے عرصے بعد موت سے ہمکنار ہو گئے۔

آسٹریلوی ساحل سے ملنے والی بوتل جس میں پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھے گئے خطوط بند تھے (ڈیب براؤن / اے پی)

آسٹریلیا کے ایک ساحل پر ہونے والی دریافت پہلی عالمی جنگ کے ساتھ جذباتی تعلق سامنے لے آئی ہے۔

دو فوجیوں کے تحریر کردہ بوتل میں بند پیغامات سمندر میں پھینکے جانے کے ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد مل گئے۔ یہ فوجی فرانسیسی جنگی میدانوں کی طرف جا رہے تھے۔

یہ دریافت نو اکتوبر کو براؤن خاندان نے کی۔

مغربی آسٹریلیا میں ایسپرینس کے قریب وارٹن بیچ سے کچرا صاف کرنے کے لیے اپنی معمول کی کواڈ موٹر بائیک مہمات میں سے ایک کے دوران، پیٹر اور ان کی بیٹی فیلیسٹی نے پانی کی سطح سے ذرا اوپر شویپس برانڈ کی ایک بوتل دیکھی۔

پیٹر کی اہلیہ ڈیب براؤن نے کہا کہ ’ہم اپنے ساحلوں کی بہت صفائی کرتے ہیں اس لیے کبھی کسی کچرے کے ٹکڑے کو نظر انداز نہیں کرتے۔ یہ چھوٹی سی بوتل وہیں پڑی تھی کہ کوئی اسے اٹھا لے۔‘

شفاف اور موٹے شیشے کے اندر پائی گئی خوشگوار لہجے میں لکھی ہوئے خطوط ملے جن پر 15 اگست 1916 درج کی تاریخ درج۔ یہ خط 27 سالہ میلکم نیول اور 37 سالہ ولیم ہارلی نے لکھے۔

ان کا بحری جہاز ایچ ایم اے ٹی اے 70 بلارٹ اسی سال 12 اگست کو ریاست جنوبی آسٹریلیا کے دارالحکومت ایڈیلیڈ سے مشرق کی طرف دنیا کے دوسرے کنارے کے طویل سفر پر روانہ ہوا جہاں اس کے سپاہی یورپ کے مغربی محاذ پر 48ویں آسٹریلین انفنٹری بٹالین کو کمک دینے والے تھے۔

نیول ایک سال بعد لڑائی میں مارے گئے۔ ہارلی دو بار زخمی ہوئے مگر جنگ میں بچ گئے اور 1934 میں ایڈیلیڈ میں سرطان میں مبتلا ہو فوت ہوئے۔ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ جرمنوں کی جانب سے مورچوں میں گیس چھوڑنے جانے کی وجہ سے سرطان میں مبتلا ہوئے۔

نیول نے درخواست کی تھی کہ جس کسی کو بوتل ملے وہ اس میں بند خط کو ان کی والدہ رابرٹینا نیول کو پہنچا دے جو ولکاوٹ میں رہتی تھیں جو اب جنوبی آسٹریلیا کا ایک تقریباً ویران قصبہ ہے۔ ہارلی کی والدہ 1916 تک وفات پا چکی تھیں، اس بات پر راضی تھے کہ جسے ان کا خط ملے وہ اسے پاس رکھ لے۔

ہارلی نے لکھا: ’جس کو یہ خط ملے خدا کرے وہ اسی طرح خیریت سے ہو جس طرح اس وقت ہم ہیں۔‘

نیول نے اپنی والدہ کو لکھا کہ وہ ’واقعی بہت اچھا وقت گزار رہے ہیں، اب تک کھانا بھی بہت اچھا ہے، ایک کھانے کے سوا جسے ہم نے سمندر برد کر دیا۔‘
انہوں نے لکھا: ’جہاز ہچکولے کھا رہا ہے اور ڈول رہا ہے، مگر ہم لیری جتنے خوش ہیں۔‘

انہوں نے لکھا کہ وہ اور ان کے ساتھی ’سمندر میں کسی جگہ‘ تھے۔ ہارلی نے لکھا کہ وہ ’بائیٹ میں کسی جگہ‘ تھے جو گریٹ آسٹریلین بائیٹ کا حوالہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کھلی خلیج ہے جو ایڈیلیڈ کے مشرق سے شروع ہوتی ہے اور مغربی کنارے پر ایسپرنس تک پھیلی ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیب براؤن کو شبہ ہے کہ یہ بوتل زیادہ دور نہیں گئی۔ غالب امکان ہے کہ اس نے ایک صدی سے زیادہ وقت ساحل پر ریت کے ٹیلوں میں دفن ہو کر گزارا۔ حالیہ مہینوں میں وارٹن بیچ پر تند لہروں کی وجہ سے ٹیلوں کے وسیع کٹاؤ نے شاید اسے باہر نکال دیا۔

کاغذ گیلا تھا، مگر تحریر پڑھی جا سکتی تھی۔ اسی وجہ سے ڈیب براؤن دونوں فوجیوں کے رشتہ داروں کو اس دریافت کے بارے میں مطلع کرنے کے قابل ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ (بوتل) بہت اچھی حالت میں ہے۔ اس پر کسی قسم کے چھوٹے آبی جاندار کی کوئی افزائش نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ سمندر میں ہوتی یا اتنے لمبے عرصے تک کھلی پڑی رہتی، تو کاغذ سورج کی تپش سے گل چکا ہوتا۔ ہم اسے پڑھ نہیں پاتے۔‘

ہارلی' کی پوتی این ٹرنر نے کہا کہ ان کا خاندان اس دریافت پر بہت حیران' رہ گیا۔

آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے بات چیت میں کہا کہ ’ہمیں اس پر بالکل بھی یقین نہیں آ رہا۔ یہ واقعی کسی معجزے جیسا محسوس ہوتا ہے اور ہمیں سچ میں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے دادا نے قبر سے ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہے۔‘

نیول کے بھائی کے پڑپوتے ہربی نیول کا کہنا تھا کہ اس ’ناقابل یقین‘ دریافت نے ان کے خاندان کو یکجا کر دیا ہے۔

ہربی نیول نے کہا: ’ایسا لگتا ہے جیسے وہ جنگ پر جانے کے لیے بہت خوش تھے۔ جو کچھ ہوا وہ بہت افسوس ناک ہے۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘

’واہ۔ وہ کیا زبردست انسان تھے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا