امریکی عدالت کا فلسطین حامی محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم

فلسطینی نژاد محمود خلیل امریکہ کے مستقل رہائشی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے گرین کارڈ کی درخواست میں معلومات چھپائیں۔

یکم جون 2024 کو محمود خلیل امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ سے متعلق صورت حال کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے (روئٹرز)

ایک امریکی امیگریشن جج نے فلسطین کے حامی کارکن اور یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو الجزائر یا شام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق محمود خلیل پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے گرین کارڈ کی درخواست میں معلومات چھپائیں۔

محمود خلیل کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ امیگریش عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ کے علیحدہ احکامات اب بھی مؤثر ہیں، جن کے تحت حکومت انہیں اس وقت ملک بدر نہیں کر سکتی یا حراست میں نہیں لے سکتی جب تک کہ ان کے وفاقی مقدمے کی سماعت جاری ہے۔

امیگریشن جج جیمی کومینس نے کہا کہ خلیل نے ’امیگریشن عمل کو بائی پاس کرنے اور اپنی درخواست کے مسترد ہونے کے امکانات کم کرنے کی غرض سے دانستہ طور پر حقائق بتانے میں غلط بیانی کی۔‘

خلیل کے وکلا نے نیو جرسی کی ایک وفاقی عدالت کو خط لکھا ہے جو ان کے شہری حقوق کے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے اور بتایا کہ وہ جج کومینس کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

30 سالہ خلیل  فلسطینی نژاد امریکہ کے مستقل رہائشی اور کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں ملک بدھ کرنے کی کوشش کی تو قبل ازیں رواں سال محمود خلیل کو امریکی امیگریشن حکام نے 100 سے زیادہ دن تک حراست میں رکھا۔

ان کی اہلیہ، جو امریکی شہری ہیں، اس وقت حاملہ تھیں اور خلیل جیل میں ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کی پیدائش کے موقعے پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ  نہیں تھے۔

انہیں 20 جون کو رہا کیا گیا۔ نیو جرسی کے ڈسٹرکٹ جج مائیکل فاربیارز نے اس موقع پر کہا تھا کہ خلیل جیسے کسی شخص کو سول امیگریشن معاملے پر سزا دینا غیر آئینی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے خلیل جیسے فلسطین نواز مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں انہیں ’یہودی دشمن‘ اور ’انتہا پسندی کے حامی‘ قرار دیا گیا۔ 

مظاہرین، جن میں بعض یہودی گروپ بھی شامل ہیں، کا مؤقف ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کے خلاف ان کی تنقید کو حکومت غلط طور پر یہودی دشمنی کے مترادف قرار دیتی ہے اور فلسطینی حقوق کے لیے ان کی حمایت کو انتہا پسندی کی حمایت سے جوڑتی ہے۔

خلیل نے کہا کہ ’یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ آزادی اظہار کے حق استعمال پر مجھ سے انتقام لیتی رہی ہے۔ جب ان کی پہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو انہوں نے مجھے خاموش کرانے کے لیے بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے، کیوں کہ میں نے فلسطین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو کر جاری نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک بدری کی ان کوششوں اور ان یونیورسٹیوں کے لیے وفاقی فنڈنگ کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جہاں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

کولمبیا یونیورسٹی ان مظاہروں کا مرکز رہی جہاں طلبہ نے اسرائیل کی جارحیت کے خاتمے اور ان کمپنیوں سے سرمایہ نکالنے کا مطالبہ کیا  جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ