خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرح افغانستان کے ساتھ بھی باہمی دفاعی معاہدہ کیا جانا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ پشاور میں ایک خصوصی انٹرویو میں زور دے کر کہا کہ ملک میں جاری عسکریت پسندی کا واحد حل مذاکرات ہیں۔
’سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کو سراہا گیا اور ہمیں بھی اس سے خوشی ہوئی۔ ایسا ہی ایک معاہدہ افغان حکومت کے ساتھ بھی کرنا چاہیے۔ مجھے امید ہے افغان طالبان اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔‘
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 17 ستمبر 2025 کو ریاض میں تاریخی اور سٹریٹجک دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ کسی ایک ملک پر حملے کو دونوں ممالک کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر بات کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا کہ پاکستان میں امن وامان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کا وفد وفاقی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے تیار ہے۔
’ہم وفاقی حکومت، پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ اور افغانستان جانے کے لیے تیار ہیں۔‘
بعض لوگوں کے خیال میں مرکز اور صوبے میں دو مختلف سیاسی جماعتوں کی وجہ سے شدت پسندی کے خاتمے پر اتفاق رائے قائم نہیں ہو رہا ہے۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔
’ہمارے صوبے کے لوگ مر رہے ہیں۔ لوگ شہادتیں دے رہے ہیں۔ کاروبار خراب ہے۔ امن نہیں ہے۔ لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اور انتہا پسندی عروج پا رہی ہے۔ ایسے میں کوئی وفاقی وزیر ایسا بیان دے دیتا ہے جو جلتی پر تیل ثابت ہوتا ہے۔‘
گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر افغانستان وفد بھیجنے کا اعلان کیا تھا جس کے قیادت کے لیے انہوں نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما محمود خان اچکزئی کا نام تجویز کیا تھا۔
دوسری جانب گذشتہ دنوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مختلف شدت پسندانہ کارروائیوں کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے افغان طالبان کو سخت پیغام بھیجا تھا کہ وہ ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ یا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
بیرسٹر سیف نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ ملکی سلامتی، ٹی ٹی پی یا سکیورٹی معاملات پر افغان حکومت سے بات چیت کرے۔
انہوں نے کہا: ’ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ افغانستان کے عوام کے نمائندوں کے ساتھ بات کریں اور یہاں سے مذہبی و سماجی رہنما، تاجروں، علما اور قبائلی مشران لے جا کر ان سے کہیں کہ آپ بھی اس آگ میں جل رہے ہیں اور ہم بھی تو آئیں اس آگ کو خود ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ ’اگر ہم ایک وفد افغانستان بھیجیں اور وہاں کے عوام اپنی حکومت پر دباؤ ڈالیں اور ہم یہاں کوشش کریں تو آپ (سکیورٹی ادارے) بھی لڑائی کی صورت حال سے باہر آئیں گے اور دیگر امور پر توجہ دے سکیں گے اور میرے خیال میں اس پر سکیورٹی اداروں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘
بیرسٹر سیف نے کہا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان نے ٹی ٹی پی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا اور مذاکرات شروع ہوئے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو ختم کرنے کے لیے واحد حل مذاکرات ہیں اور اگر امریکہ اور نیٹو جیسی بڑی تنظمیں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں تو ہمارے مسئلے کا حل بھی یہی ہے۔
’آپریشن نہیں ہورہا‘
خیبر پختونخوا میں صورت حال کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کے حالات اتنے بھی مخدوش نہیں کہ حکومت کا رٹ قائم نہ ہو۔ ’میں یہ بھی نہیں کہتا کہ حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ بعض پہاڑی علاقوں میں واقعات ہوتے رہتے ہیں اور سکیورٹی ادارے ان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ آپریشن کا مطلب یہ ہے کہ فوج، توپیں اور ٹینک پہنچ گئے ہوں۔ کسی علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا ہو اور عام لوگوں علاقہ چھوڑ رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
بیرسٹر سیف نے کہا: ’بے شک فوج موجود ہے اور 2007 سے موجود ہے لیکن کوئی بڑا آپریشن نہیں ہورہا ہے بلکہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں ہورہی ہیں اور وہ ہونی چاہییں۔ اگر اطلاع ملے کہ فلاں علاقے میں مسلح دہشت گرد موجود ہے تو فوج کارروائی کرتی ہے۔‘
ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟
خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کی حمایت سے 2022 میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے تھے جس میں افغان طالبان نےثالثی کا کردار ادا کیا تاہم وہ مذاکرات تین ماہ کے دوران ہی ناکام ہوئے۔
پاکستان سے وفود افغانستان جا کر افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے نمائندوں سے ملے تھے، عارضی جنگ بندی بھی ہوئی تھی لیکن بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی اور پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں دوبارہ اضافہ ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ان مذاکرات کے دوران تین مہینے تک کارروائیاں بند رہیں لیکن ان مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ ان دنوں افغانستان میں القاعدہ کے مرکزی رہنما ایمن الظواہری کی موت تھی جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق اس وقت یہ معاملہ پاکستانی حکومت نے افغان حکومت سے درست طریقے سے نہیں اٹھایا اور الٹا الزام تراشیاں شروع ہو گئیں اور افغان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد افغان طالبان مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئے۔
مذاکرات کی ناکامی کی دوسری وجہ بیرسٹر سیف کے مطابق ٹی ٹی پی کے اس وقت مذاکرات مخالف دھڑے حافظ گل بہادر گروپ کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر حملے تھے جس سے بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔
بیرسٹر سیف نے کہا: ’عوام کی سطح پر یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ یہ کیسے مذاکرات ہیں کہ ایک طرف بات چل رہی ہے اور دوسری طرف فوج پر حملے ہورہے ہیں لیکن مرکزی حکومت نے اس معاملے کو بھی ہینڈل نہیں کیا کہ عوام کو اعتماد میں لے کر ان کو بتایا جاتا کہ یہ حملے مذاکرات کے مخالف دھڑا کر رہا ہے۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کی تیسری وجہ یہ تھی کہ مرکزی حکومت نے اس معاملے کو سیاست کی نذر کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب تک افغانستان مستحکم نہیں ہوگا اور جب تک وہاں معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے اور ہمارے ان سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، خیبر پختونخوا اور پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ برقرار رہے گا۔‘