خیبر پختونخوا: کالجوں کی آؤٹ سورسنگ پر اساتذہ کا احتجاج، کلاسوں کا بائیکاٹ

55 کالجوں کو نجی شعبے کے انتظام میں دینے کے فیصلے پر اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، جن کا مؤقف ہے کہ کالجوں کی ناقص کارکردگی کی اصل وجہ عملے کی کمی ہے۔

اساتذہ آٹھ اکتوبر 2025 کو صوبائی حکومت کی جانب سے بعض کالجوں کی آؤٹ سورسنگ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (عبدالحمید)

خیبر پختونخوا میں کالجوں کے اساتذہ صوبائی حکومت کی جانب سے مختلف اضلاع میں بعض کالجوں کی آؤٹ سورسنگ کے فیصلے کے خلاف گذشتہ ایک ہفتے سے احتجاج پر ہیں اور صبح 10 بجے کے بعد کلاسوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔

اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے سوات، مردان، نوشہرہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت نے گذشتہ ہفتے کابینہ میں صوبے کے بعض کالجوں کو آؤٹ سورس کر کے نجی شعبے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مقصد ناقص کارکردگی دکھانے والے کالجوں کا معیار بہتر کرنا ہے۔

خیبر پختونخوا لیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر جمشید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے میں 330 کالج ہیں اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 55 کالجوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف 55 کالجوں کی کارکردگی ہی کیوں خراب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومتی سطح پر مسئلہ ہے۔

جمشید خان کے بقول: ’صوبے کے تمام کالجوں میں 13 ہزار سے زائد سٹاف کی ضرورت ہے لیکن ہم آٹھ ہزار سے زائد پر کام چلا رہے ہیں جبکہ باقی چھ ہزار بھرتیاں حکومت کی طرف سے نہیں کی جا رہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ بعض کالجوں میں انرولمنٹ اور کارکردگی اتنی اچھی ہے کہ وہاں طلبہ کو داخلہ بھی نہیں ملتا کیونکہ میرٹ زیادہ ہوتا ہے۔

جمشید خان کے مطابق: ’کسی کالج میں اگر 25 اساتذہ کی ضرورت ہے اور وہاں صرف پانچ اساتذہ ہوں، تو ظاہری بات ہے کہ اس کالج کی کارکردگی خراب ہی ہو گی لیکن بجائے آؤٹ سورس کرنے کے ایسے کالجوں میں مزید بھرتیاں کی جائیں تاکہ ان کارکردگی بہتر ہوجائے۔‘

جمشید خان کا کہنا تھا کہ ’اساتذہ اس سارے معاملے میں اہم سٹیک ہولڈر ہیں، لیکن ہمارے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہمیں بھی اندازہ نہیں ہے کہ حکومت کیوں ایسے فیصلے کیوں کر رہی ہے اور نہ ایسے فیصلوں میں سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جارہا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔

آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت نے گذشتہ ہفتے کابینہ اجلاس سے منظوری کے بعد صوبے کے بعض اضلاع میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے کالجوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

صوبائی محکمہ تعلیم کی جانب سے آؤٹ سورس کرنے اور اساتذہ کی ہڑتال کے بعد ایک وضاحتی بیان میں بتایا گیا کہ حکومت کالجوں کو نہ تو نجی ملکیت میں دے رہی ہے اور نہ ہی لیز پر دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کے مطابق حکومت صرف ان کالجوں کے انتظامی و عملیاتی امور نجی ماہرین کے سپرد کر رہی ہے تاکہ کارکردگی کو بہتر بنائی جا سکے جبکہ کالجوں کی ملکیت، کنٹرول اور نگرانی مکمل طور پر حکومت کے پاس ہوں گی۔

ابتدائی مرحلے میں پانچ کم کارکردگی والے کالجوں کو آؤٹ سورس کیا گیا اور اس کی وجہ طلبہ کی انرولمنٹ میں کمی، انتظامیہ اور تعلیمی کارکردگی میں گراوٹ، دور دراز علاقوں کے کالجوں میں انتظامات فراہم کرنے میں مشکلات اور دستیاب انفراسٹرکچر کا ناکافی استعمال ہے۔

محکمہ تعلیم کے مطابق آؤٹ سورس کرنے سے فیسوں میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا اور ضرورت کے مطابق ان کالجوں میں سہولیات اور لیبارٹری کا قیام یقینی بنایا جائے گا۔

اسی طرح محکمہ تعلیم کے مطابق آؤٹ سورسنگ سے کالجوں کے اساتذہ کی سرکاری سروس پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ کسی عہدے میں کمی کی جائے گی اور نہ ہی برطرفی کا خطرہ ہے۔

کالجوں کے علاوہ صوبے میں بعض سرکاری سکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ ایک سرکاری سکول کے استاد نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب سکول کے اساتذہ کی جانب سے بھی احتجاج کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ جن سکولوں کا نتیجہ 40 فیصد سے کم ہے، حکومت انہیں نجی اداروں کے سپرد کرنے جا رہی ہے اور حکومت کے مطابق اس کا مقصد کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔

محکمہ تعلیم کے مطابق یہ فیصلہ رواں سال آگست میں کیا گیا، جس کے تحت صوبے میں 1500 سکولوں اور 55 کالجوں کو آؤٹ سورس کیا جائے گا، جن میں سے 500 سکول قبائلی اضلاع میں قائم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس