پاکستانی حکومت اور نمایاں کاروباری اداروں نے بدھ کو اسلام آباد میں پاک سعودی مشترکہ بزنس کونسل کے اجلاس میں سعودی عرب سے آنے والے تجارتی وفد کے سامنے 28 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے تقریباً 40 سرمایہ کاری کے منصوبے پیش کیے ہیں۔
عرب نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ’سرمایہ کاری کے مواقعوں‘ کی یہ فہرست بدھ کو شہزادہ منصور بن محمد آل سعود کی قیادت میں آنے والے 16 رکنی سعودی وفد کے سامنے پیش کی گئی۔
یہ وفد منگل کی رات اسلام آباد پہنچا تھا اور اس نے وفاقی وزرا سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) اور کم از کم 29 نجی کمپنیوں کی تفصیلی پریزنٹیشنز بھی حاصل کیں۔
’اپرچونیٹیز پائپ لائن‘ کے عنوان سے پیش کی گئی ایک پریزنٹیشن میں وزارت تجارت اور ایس آئی ایف سی کے حکام نے سعودی سرمایہ کاروں کے لیے توانائی، کان کنی و معدنیات، آئی ٹی و ٹیلی کام، زراعت و لائیو سٹاک، رابطہ کاری، سیاحت، صنعت اور نجکاری سمیت کئی اہم شعبوں میں منصوبے پیش کیے۔
ایس آئی ایف سی کے سیکریٹری جمیل احمد قریشی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’پاکستانی کمپنیوں نے سعودی کمپنیوں کے سامنے تقریباً 40 منصوبے رکھے اور اب وہ یہ طے کر رہی ہیں کہ کون سا منصوبہ منتخب کیا جائے اور کس میں سرمایہ کاری کی جائے۔‘
سعودی وفد کو پیش کیے گئے منصوبوں میں بڑے صنعتی اور انفراسٹرکچر منصوبے شامل ہیں، جن میں 10 ارب ڈالر مالیت کی ایک نئی گرین فیلڈ ریفائنری (مکمل طور پر نیا منصوبہ)، 2.1 ارب ڈالر کی براؤن فیلڈ ریفائنری (موجودہ تنصیب کی اپ گریڈیشن)، 1.8 ارب ڈالر کا مربوط سٹیل پلانٹ، 3.6 ارب ڈالر کا دیامر بھاشا ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبہ اور پانچ ارب ڈالر کا نیفتھا کریکر کمپلیکس شامل ہیں، جس سے پاکستان میں پلاسٹک اور صنعتی استعمال کے لیے اہم کیمیکل اجزا مقامی طور پر تیار کیے جا سکیں گے جو اس وقت درآمد کیے جاتے ہیں۔
دیگر تجاویز میں ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں، جن میں 2.3 ارب ڈالر مالیت کے موٹروے منصوبے (M6، M10، اور M13)، 50 کروڑ ڈالر کے دو منصوبے — ایک فعال فارماسیوٹیکل اجزا (API) کی تیاری کے لیے اور دوسرا انجیکٹ ایبل ادویات کی تیاری کے لیے — اور 50 کروڑ ڈالر کا ایل پی جی سٹوریج ٹرمینل شامل ہیں۔
فہرست میں مزید 25 کروڑ ڈالر کا کلین پٹرولیم ٹرمینل، 21 کروڑ ڈالر کے جھینگا فارمنگ اور آلو و پیاز پراسیسنگ منصوبے، 15 کروڑ ڈالر کے چاول مِلنگ و مکئی پراسیسنگ منصوبے اور 10 کروڑ ڈالر کے گوشت و مٹن سپلائی منصوبے بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان نے پانچ کروڑ ڈالر کے تاریخی عمارت (چیمبر ہاؤس) کو لگژری ہوٹل میں تبدیل کرنے کے منصوبے، 20 کروڑ ڈالر کی ہیومن ویکسین تیار کرنے کی فیکٹری، 13.6 کروڑ ڈالر کے اناج کے گودام اور 12 کروڑ ڈالر کے مخلوط نوعیت کے لگژری رییل سٹیٹ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی۔
قریشی نے کہا کہ نجی شعبے کی تجاویز کے ساتھ حکومت نے بھی سعودی عرب کے لیے کچھ منصوبوں میں شراکت کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہفتے کے اختتام تک ہمارے پاس مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) اور معاہدوں کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں ہوں گی۔‘
’کچھ معاہدے 26 اکتوبر کو ریاض میں دستخط کیے جائیں گے۔‘
سعودی عرب بدستور پاکستان کے لیے ترسیلاتِ زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جہاں سے گذشتہ سال نو ارب ڈالر سے زائد رقوم پاکستان بھیجی گئیں۔
ریاض پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، مثلاً تیل کی ادائیگی موخر کرنا اور تقریباً پانچ ارب ڈالر کے وہ ڈپازٹس بار بار رول اوور کرنا جو اس نے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے ہیں۔
سعودی عرب اپنی تیل پر انحصار کرنے والی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ پاکستان 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی مدد سے اپنی قرضوں میں جکڑی معیشت کو مستحکم کرنا اور بار بار پیدا ہونے والے مالیاتی بحرانوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدھ کو پاک سعودی بزنس کونسل اجلاس کے بعد دونوں ممالک نے 25 اکتوبر کو ریاض میں ایک فالو اپ فورم منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جہاں حکومت سے حکومت (G2G) اور کاروبار سے کاروبار (B2B) کی سطح پر معاہدے اور یادداشتیں دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔
وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا یہ عام قسم کے B2B یا روایتی MoUs نہیں ہوں گے
’جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا، وہ ایسے معاہدوں کی صورت میں ہو گا جن کے تحت عملی اور ڈھانچہ جاتی اقدامات کیے جائیں گے۔‘
یہ اعلیٰ سطحی دورہ گذشتہ ماہ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے طے پانے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد ہو رہا ہے۔
جام کمال نے کہا ’میں اسے پاکستان کی معیشت، تجارت اور خسارہ کم کرنے کی سمت میں ایک بڑی پیش رفت اور موقع کے طور پر دیکھتا ہوں۔‘
’دونوں ممالک کی قیادت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک نیا قدم اٹھایا ہے کہ ہمارے اقتصادی تعلقات، سرمایہ کاری کے منصوبے اور بہتر معیشت کی جانب پیش رفت کو ایک بلند سطح پر لے جایا جائے۔‘
گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی اور سعودی کاروباری اداروں کے درمیان 2.8 ارب ڈالر مالیت کی 34 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان میں سے کتنی عملی شکل اختیار کر چکی ہیں؟ تو ایس آئی ایف سی کے جمیل احمد قریشی نے بتایا ’ان میں سے 16 معاہدوں میں بدل چکی ہیں۔باقیوں پر بھی کام جاری ہے۔‘