اگر آپ کا فون چوری ہو جائے، تو اس میں آپ ہی کا قصور ہے

ہماری سڑکیں فون کے زومبیوں سے بھری پڑی ہیں۔ شاید اگر کوئی ان ’آئی ڈمیز‘ کے ہاتھ سے ان کے فون چھین لے تو وہ ہوش میں آ جائیں۔

لندن کے مرکزی علاقے آکسفورڈ سٹریٹ پر لوگ موبائل فونز استعمال کرتے ہوئے گزر رہے ہیں  (اے ایف پی)

جب بھی میں اور میری بیوی لندن میں کہیں جانے سے پہلے راستہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ باقی سب کی طرح فوراً اپنا موبائل فون نکال لیتی ہے۔

اور میں حسب عادت فوراً تنبیہ کرتا ہوں کہ فون مضبوطی سے پکڑو، ایک فون چوری ہونا سبق سکھنے کے لیے کافی ہے۔

حال ہی میں وہ جاگنگ ختم کرنے کے بعد فون میں کچھ نوٹ کر رہی تھی کہ ایک شخص بائیک پر آیا اور فون اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر لے گیا۔ اس نے دوڑ کر پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر پانچ کلومیٹر دوڑنے کے بعد اس میں مزید دوڑنے کی طاقت نہیں بچی تھی۔

خاص طور پر لندن میں فون چوریوں کی لہر شدت اختیار کر چکی ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق 2024 میں ایک لاکھ سولہ ہزار سے زیادہ فون چوری ہوئے یعنی ہر گھنٹے میں تقریباً 13 فون۔ اب تو سڑکوں پر ‘Mind the grab’ کے انتباہی پیغامات بھی پینٹ کیے جا رہے ہیں اور سکاٹ لینڈ یارڈ تیز رفتار ای بائکس آزما رہا ہے تاکہ 60 سیکنڈ میں فون چوروں کو پکڑا جا سکے۔

اسی دوران نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکہ میں پولیس نے دو ہفتے کی کارروائی کے دوران ایک ایسا نیٹ ورک توڑا جو چوری شدہ فون چین بھیج رہا تھا اور ان سے دو لاکھ پاؤنڈ نقدی ضبط کی گئی۔ برطانیہ اس وقت یورپ میں فون چوری کے 40 فیصد واقعات کا مرکز ہے۔

آپ نے وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں بائیک پر سوار کوئی چور ایک لمحے میں کام میں مگن لوگوں سے فون جھپٹ لیتا ہے۔ اکثر وہ ای بائیک پر ہوتا ہے، چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ۔ شاید آپ نے ایسی ہی کوئی ویڈیو اپنے فون پر دیکھی ہو اور اگلے لمحے وہی فون آپ کے ہاتھ سے چھن جائے، یہ ایک ظالمانہ مگر دائرے میں گھومتی ہوئی سچائی ہے۔

اگر اس سے کچھ تسلی ہو سکتی ہے کہ لندن میں پرتشدد جرائم کی شرح گھٹ رہی ہے۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کے کرائم سروے اور پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق قتل، چاقو سے حملے اور فائرنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ آپ کی جان لینے نہیں آ رہے مگر وہ آپ کی اس چھوٹی سی مشین کے پیچھے ضرور ہیں جس میں آپ کی شناخت، رابطے اور بینک اکاؤنٹ سمیت آپ کی پوری زندگی سمٹی ہوئی ہے اور شاید اسی لیے یہ زیادہ خوفناک بات ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر آپ کا فون آپ کے ہاتھ سے چھن جائے اور آپ اسے چور کے ہاتھوں میں سڑک پر دور جاتا دیکھیں، تو کچھ حد تک آپ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔

ذرا سوچیں، اگر مایوسی، لاپرواہی اور شاید پیسے کی تنگی کی وجہ سے آپ خود ایک فون چور ہوں۔ آپ اپنی میٹ بلیک ای بائیک پر بیٹھے ہیں اور اردگرد ہزاروں لوگ ایسے آلے لہرا رہے ہیں جن کی قیمت ایک ہزار پاؤنڈ ہے۔ یہ تو موقع ہے ہی اتنا آسان کہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔

آپ ملک کے بگڑنے یا سب کچھ تباہ ہو جانے کی شکایت کر سکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ نہیں۔ کل دوپہر میں نے کئی لوگوں کو دیکھا جو اپنے فون ڈھیلے ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھے یا کیفے کی میز پر رکھے بیٹھے تھے۔ یہ منظر اتنا مضحکہ خیز تھا کہ ایک لمحے کو دل کیا میں خود انہیں چوری کر لوں اور فوراً واپس کر دوں، بس اتنا کہ وہ سبق سیکھ جائیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ فون چوری میں اضافہ ناگزیر ہے یا پولیس کو کچھ نہیں کرنا چاہیے مگر شاید ہمیں خود بھی کچھ ہوش سے کام لینا چاہیے۔

میں روز دیکھتا ہوں کہ لوگ سڑک پار کرتے ہوئے سکرین میں گم ہیں۔ چند مزید سیکنڈ سکرول کرنے کے لیے وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں، مگر فون مضبوطی سے پکڑ نہیں سکتے۔

اور اگر آپ لندن میں ہیں، تو آپ کا خدا ہی حافظ ہے۔ بہت جلد شہر میں صرف دو پولیس سٹیشن 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں، ایک لیوشم میں اور دوسرا چیرنگ کراس میں (یعنی عملی طور پر صرف لیوشم ہی کا سٹیشن کھلا رہے گا۔)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سچ یہ ہے کہ فون سمگلنگ کے نیٹ ورک کے پیچھے دوڑنے کے علاوہ پولیس کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ آپ کا فون اگر چین میں تفریحی سفر پر جا رہا ہے تو یہ ان کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں۔

لندن اب بھی ایک خوبصورت شہر ہے، شاندار لوگوں سے بھرا ہوا۔ مگر سڑکیں نہ آپ کی پرواہ کرتی ہیں، نہ آپ کے فون کی۔
لہٰذا شاید اب وقت ہے کہ آپ خود کچھ زیادہ احتیاط برتیں۔ انسٹاگرام ریلز دیکھنی ہے تو بیٹھ کر دیکھیں۔ میسج بھیجنا ہے تو رک کر بھیجیں اور فون کو مضبوطی سے تھامیں۔
اور اگر آپ یہ تحریر چلتے ہوئے پڑھ رہے ہیں تو، شکریہ، لیکن قصور میرا نہ ٹھہرائیں — سر اٹھا کر دیکھیں۔ ایک اور بات جو مجھے پریشان کرتی ہے وہ یہ کہ مائیں جو بچوں کی گاڑی (بگی) دھکیلتے ہوئے مکمل طور پر فون میں گم ہوتی ہیں، ان کی بچے پر توجہ نہیں ہوتی۔ آخر ذمہ دار والدین کہاں گئے؟
مجھے تو اس سے بھی زیادہ فکر ان فون کے ’زومبیوں‘ کی ہے جو مصروف سڑک عبور کرتے ہوئے بھی سامنے نہیں دیکھتے۔

برائٹن میں اور غالباً دوسرے شہروں میں بھی مصروف چوراہوں پر فٹ پاتھوں پر ایسے پیغام پینٹ کیے گئے ہیں جو پیدل چلنے والوں کو فون استعمال نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ مگر کیا وہ دھیان دیتے ہیں؟ بالکل نہیں! وہ تو اپنے فون پر پیغام لکھنے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔

ہماری سڑکیں فون کے زومبیوں سے بھری پڑی ہیں۔ شاید اگر کوئی ان ’آئی ڈمیز‘ کے ہاتھ سے ان کے فون چھین لے تو وہ ہوش میں آ جائیں۔

مگر جیسے ہی آپ انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، گفتگو فوراً ’متاثرہ کو قصوروار ٹھہرانے‘ کے موضوع پر جا پہنچتی ہے۔

لہٰذا میرا مشورہ یہی ہے کہ بس انہیں ان کا انجام بھگتنے دیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر