سعودی عرب نے اپنے بڑے منصوبوں اور مصنوعی ذہانت سے متعلق عزائم کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے منگل کو ایک بڑی سرمایہ کاری کانفرنس کا آغاز کیا، جس میں سربراہان مملکت اور عالمی کاروباری اشرافیہ شامل ہیں۔
چین کے نائب صدر ہان ژینگ، متعدد چینی وزرا اور 150 سے زیادہ کاروباری رہنماؤں نے کانفرنس میں شرکت کی، جبکہ شام کے عبوری صدر بھی ریاض میں ہونے والی فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس کے مہمانوں میں شامل ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر اور امریکی سرمایہ کاری کے بڑے اداروں گولڈمین سِکس، جے پی مورگن اور بلیک راک کے سربراہان بھی دارالحکومت کے شاندار کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر، سابق شاہی محل میں جمع ہو رہے ہیں۔
جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف بھی سعودی ولی عہد کی خصوصی دعوت پر فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیو کی نویں کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض میں موجود تھے جہاں پیر کو انہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے ریاض میں ملاقات کی تھی۔
فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو (ایف آئی آئی)، جسے ’صحرا میں ڈیووس‘ کہا جاتا ہے، سعودی عرب میں ڈالروں کی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ دنیا کا یہ سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب کے خودمختار نجی ادارہ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ یاسر الرمیان نے کہا کہ گذشتہ سال غیر ملکی سرمایہ کاری 24 فیصد کے حساب سے بڑہ 31.7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’ہم سعودی عرب کو دنیا کے سامنے لے گئے ہیں اور اب دنیا سعودی عرب کی طرف آ رہی ہے۔‘
فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کا 9واں ایڈیشن، جس میں تقریباً 20 سربراہان مملکت شامل ہیں، غزہ میں جنگ بندی اور خلیج میں مضبوط اقتصادی ترقی کے پس منظر میں منعقد ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینیئر سکالر رابرٹ موگیلنکی نے کہا کہ ’ایف آئی آئی مہنگے اور بعض اوقات چیلنجنگ معاشی تبدیلی کے ایجنڈے کی مالی اعانت کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کا ایک اہم سالانہ موقع ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’واضح طور پر خرچ کرنے کی ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس لیے سرمایہ کار اس بات کی تلاش کریں گے کہ پیسہ آگے کہاں جا رہا ہے۔‘
اے آئی پلیئر
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں گلف اکنامک پالیسی کے ماہر کیرن ینگ نے کہا کہ ’کچھ میگا پراجیکٹس سے واپسی‘ ضروری نہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکے۔
’اس کے برعکس، وہ مالیاتی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سیاحت، تفریح، ریئل سٹیٹ اور تیل کے بنیادی ڈھانچے میں مواقع یہ سب ملکی معیشت میں مضبوط دلچسپی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘
سعودی عرب یہ ظاہر کرنے کا بھی خواہشمند ہوگا کہ وہ ٹیکنالوجی میں ایک حقیقی کھلاڑی ہے، خاص طور پر مصنوعی ذہانت جہاں امیر خلیجی طاقتیں نمایاں ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایف آئی آئی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت مصنوعی ذہانت کمپنی ہیومین اور متعدد بین الاقوامی کمپنیوں کے درمیان سودے متوقع ہیں۔
موگیل نِکی نے کہا، ’سعودی عرب کی کچھ نئی ٹیک کمپنیاں خود نوزائیدہ ادارے ہیں، اس لیے وہ سامعین کو یقین دلانے کے لیے کوشاں ہوں گی کہ مملکت کے ٹیک عزائم بہت حقیقی، قابل عمل اور پرجوش ہیں۔‘
یہ کانفرنس ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے متوقع دورہ امریکہ سے چند ہفتے پہلے ہوئی، جو مارچ 2018 کے بعد ان کا پہلا دورہ ہے۔