پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جمعرات کو پشاور میں قبائلی عمائدین سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک بشمول افغانستان کے ساتھ امن چاہتا ہے، تاہم افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں بتایا کہ فیلڈ مارشل نے آج پشاور میں قبائلی عمائدین کے جرگے سے تفصیلی نشست کی۔ 
بعد ازاں ہیڈ کوارٹرز الیون کور میں انہیں موجودہ سکیورٹی صورتحال، عملی تیاریوں اور پاک افغان سرحد کے ساتھ امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے جاری انسداد دہشت گردی اقدامات پر ایک جامع بریفنگ دی گئی۔
بیان کے مطابق جرگے سے خطاب میں فیلڈ مارش نے ’پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران قبائلی عوام کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ثابت قدم اور غیر مشروط حمایت کو سراہا۔‘
انہوں نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا کے بہادر عوام کی قربانیوں اور عزم کو خراج تحسین پیش کیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ افغانستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن پاکستان نے گذشتہ چند برسوں میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک افغان تعلقات بہتر بنانے کے لیے متعدد سفارتی اور اقتصادی کوششیں کیں۔
فیلڈ مارشل نے کہا تاہم، انڈیا کی سرپرستی میں چلنے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی بجائے افغان طالبان حکومت ان گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے۔ 
انہوں نے قبائلی عمائدین کو یقین دلایا کہ ’پاکستان، بالخصوص خیبر پختونخوا، کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کیا جائے گا۔‘
’قبائلی عمائدین نے چیف آف آرمی سٹاف کے کھلے اور دوٹوک مؤقف کو سراہا اور پاکستان میں امن کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔‘ 
آئی ایس پی آر کے مطابق ’قبائلی عمائدین نے دہشت گردی اور افغان طالبان کے خلاف پاک فوج کے ساتھ اپنی مکمل حمایت کے عزم کو دہرایا۔‘
فیلڈ مارشل کی پشاور میں قبائلی عمائدین سے ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔
دونوں ملکوں کے مابین ترکی میں طویل مذاکرات کی ناکامی کے بعد بات چیت پر دوبارہ آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی نے جمعرات کو ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ میزبان حکومت کی درخواست پر اسلام آباد نے افغانستان سے استنبول میں دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اسی مہینے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا انعقاد ہوا۔
بات چیت کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا اور 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد 25 اکتوبر کو استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے۔ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔
مذاکرات کے دوسرے دور کی ناکامی کے بعد پاکستانی حکام نے افغان حکومت کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہے۔ 
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ’امن کو ایک موقع دینے کی کوشش‘ میں قطر اور ترکی جیسے برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے، تاہم ’کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا۔ نتیجتاً یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔‘
دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے الزام عائد کیا کہ افغان حکومت انڈیا کی پراکسی بنے ہوئے ہیں۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا ’سب کچھ ایک نکتے پر ٹکا ہوا تھا کہ افغان حکومت یا ٹی ٹی اے (تحریک طالبان افغانستان) کی سرپرستی میں پاکستان کی سرزمین میں کوئی دراندازی نہیں ہو گی کیونکہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) افغان سرزمین سے پاکستان میں کام کر رہی ہے یا افغان سرزمین سے سپانسر ہو رہی
ہے۔‘ 
ادھر افغان طالبان حکومت کے نمائندے سہیل شاہین نے بدھ کی شب میڈیا کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا ’پاکستان کے بیانات حقائق کی عکاسی نہیں کرتے۔ ہم ایسا حل چاہتے ہیں جہاں دونوں طرف کے خدشات دور ہوں نہ کہ ایک طرف۔‘
 
            
 
           
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
	             
	             
	             
	             
	             
	             
                     
                     
                     
                    