نیشنل کالج آف آرٹس کے 150 سال:’تقریبات میں 200 سے زائد فن کار شریک‘

این سی اے کے قیام کو 150 سال مکمل ہونے پر ’این سی اے ٹرائی نالے 2025‘ کے عنوان سے تقریبات کا آغاز ہو گیا۔

لاہور میں برصغیر کی تاریخی درس گاہ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) کے قیام کو 150 سال مکمل ہونے پر ’این سی اے ٹرائی نالے 2025‘ کا جمعے سے آغاز ہو گیا۔

 این سی اے کو ہمیشہ سے فن تخلیق اور ثقافتی ہم آہنگی کا محور سمجھا گیا جس نے ہر دور میں آرٹ کے ذریعے معاشرے میں امن و ترقی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

این سی اے کے راول پنڈی، اسلام آباد اور گلگت کے بعد کراچی میں کیمپس بنانے کی تیاریاں جاری ہیں۔

این سی اے کی بنیاد 1875 میں لاہور مال روڑ استنبول چوک کے قریب رکھی گئی۔ 150 سال بعد بھی مخصوص طرز کی اس تاریخی عمارت کو اصل حالت میں برقرار رکھا گیا ہے۔

یہاں ممتاز آرٹسٹ، ڈیزائنر،موسیقار،محققین، فن تعمیرات کی تعلیم حاصل کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو منوا رہے ہیں۔ 

معروف ماہر تعمیرات نیر علی دادا، علی ظفر، عائشہ عمر سمیت کئی بڑے بڑے نام اسی درس گاہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

فلم انڈسٹری ہو یا موسیقی اور ادب، لاہور سمیت ملک کی بڑی بڑی عمارتوں کی ڈیزائننگ میں کہیں نہ کہیں این سی اے کے طلبہ کا کردار نظر آئے گا۔

یہاں فنی تعلیم کے ساتھ آزادی اظہار رائے اور من پسند لائف سٹائل کی تربیت آج بھی برقرار ہے۔

وائس چانسلر این سی اے پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ ٹرائی نالے این سی اے کی 150 سالہ شاندار تاریخ کے جشن کا حصہ ہے۔

’یہ ادارہ ہمیشہ سے فن، تخلیق اور ثقافتی ہم آہنگی کا محور رہا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آرٹ کے ذریعے معاشرتی امن و ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

’اس ٹرائی نالے میں 200 سے زائد ملکی اور بین الاقوامی فن کار حصہ لے رہے ہیں جن میں یورپ، چین، ایران، برطانیہ اور فلسطین سمیت مختلف ممالک کے آرٹسٹ شامل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کسب کمال کن‘ کے عنوان سے یہ تقریب این سی اے کے تاریخی موٹو ’کسبِ کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی‘ سے ماخوذ ہے جس کا مقصد تخلیقی صلاحیتوں، فنونِ لطیفہ اور ثقافتی تنوع کو فروغ دینا ہے۔

این سی اے کی تاریخ اور کردار

این سی اے ریکارڈ کے مطابق موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) لاہور پاکستان کا سب سے قدیم اور مشہور فنون لطیفہ کا ادارہ ہے۔

این سی اے جنوبی ایشیا کا دوسرا قدیم ترین آرٹ سکول ہے۔ اس کی بنیاد 1875 میں میو سکول آف انڈسٹریل آرٹس کے نام سے رکھی گئی۔

انگریزوں کی حکومت نے برٹش انڈیا میں صرف دو آرٹ کالجز بنائے جن میں سے ایک میو سکول تھا۔

اس کا نام لارڈ میو کے نام پر رکھا گیا جو 1872 میں جزائر انڈمان میں قتل ہوگئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر مرتضی جعفری کے بقول ’میو سکول ابتدا میں انڈسٹریل فنون کے بنایا گیا لیکن وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

’1885میں وہ ڈگری جاری کرنے والا ادارہ بن گیا۔ پہلے ڈپلومہ پروگرام تھا پھر ڈگری پروگرام شروع ہوا۔

’اس میں کئی شعبوں کا بھی اضافہ ہوا جس میں فلم، ٹیلی ویژن، میوزکالوجی اور کلچر سٹڈیز شامل ہیں۔

’پھر نئے پروگرامز کا آغاز ہوا جس میں ویژول آرٹس میں ماسٹرز شامل ہے کلچر سٹڈیز میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی شروع کی گئی۔

’2021میں ہمیں وفاقی حکومت سے چارٹرڈ یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔

مرتضی جعفری نے مزید بتایا کہ این سی اے کی تاریخی عمارت میں ضرورت کے لحاظ سے کچھ اضافہ کیا گیا۔

پہلے 1970 کی دہائی میں توسیع کی گئی جب کہ اس کے بعد میں 1992میں توسیع کی گئی۔ اب ایک بہت بڑا بلاک شامل کیا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں شارٹ کورسز کرنے والے بھی بڑے بڑے ٹیلی ویژن چینلز کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

’مصنوعی ذہانت ایک ٹول کے طور پر تو استعمال ہوسکتی ہے لیکن فن اپنی جگہ موجود رہے گا۔‘

انہوں نے بتایا ہر سال چاروں صوبوں کو میرٹ پر سیٹیں دی جاتی ہیں۔ تمام کورسز اور مضامین میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد 1600 کے قریب رہتی ہے۔

’سالانہ میرت پر کوٹہ سے چاروں صوبوں کو سیٹس دی جاتی ہے۔ ہماری تمام کورس اور مضامین کے طلبہ کی تعداد 16سو کے قریب رہتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ