ایک صدی قبل 1914 سے 1918 کے درمیان ہونے والی پہلی عالمی جنگ میں برطانوی فوج کی مالی معاونت کے لیے ہندوستان پر راج کرنے والی برطانوی حکومت نے لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے کسانوں سے 16 لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کی تھی۔
جنگ ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے اس مد میں اکٹھی کی گئی رقم کسانوں کو واپس لوٹانے کا فیصلہ کیا، جس پر پنجاب کے دیگر اضلاع میں عملدرآمد کیا گیا۔
تاہم لائل پور کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اے اے میکڈونلڈ کے مشورے پر یہاں اس رقم سے کسانوں کے بچوں کو تعلیمی وظائف دینے کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا گیا، جو ’کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ‘ کے نام سے آج بھی موجود ہے۔
پاک و ہند میں یہ اپنی نوعیت کا واحد ٹرسٹ ہے جو جنگ کے لیے اکٹھی کی گئی رقم سے قائم کیا گیا اور تعلیم کے فروغ کا ذریعہ بنا۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سابق صدر سلیم جہانگیر چٹھہ 1982 میں اس ٹرسٹ کے ٹرسٹی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اس سے پہلے ان کے والد اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہدری شریف علی چٹھہ بھی کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ کے ٹرسٹی رہ چکے تھے۔
ان کے بقول: ’1914 میں پہلی عالمی جنگ کے موقعے پر دفاعی فنڈ کے طور پر گورنمنٹ آف برطانیہ نے کاشت کاروں پر فی ایکڑ ٹیکس لگایا، ایکڑ سے مراد کیلہ ہے۔ آپ کے پاس لائل پور ضلع میں 16 لاکھ روپے اکٹھے ہوئے، اسی عرصے میں یہ جنگ بند ہو گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ لائل پور کے ڈپٹی کمشنر اے اے میکڈونلڈ نے خط لکھ کر اس وقت کے گورنر پنجاب سر مائیکل فرانسس ایڈوائر کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر اس رقم سے ٹرسٹ بنا کر ساری رقم بینک میں فکس ڈیپازٹ کروا دی جائے اور اس سے جو منافع ملے، اس سے کاشت کاروں کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیئے جائیں تو ضلعے میں تعلیم کے فروغ میں بہت مدد ملے گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ بنا کر 16 لاکھ روپے کی یہ رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دی، جو کہ اب اربوں روپے ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس رقم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا کیونکہ جب کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ معرض وجود میں آ گیا، لوگوں نے وظائف سے فوائد حاصل کیے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اس وقت جو آدمی کیلہ گفٹ فنڈ سے وظیفہ لے کر پڑھتا تھا، جب وہ ملازمت پر لگتا تھا تو وہ یکمشت ادائیگی واپس کر دیتا تھا اور وہ پیسے دوبارہ اس اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتے تھے۔‘
سلیم جہانگیر چھٹہ کے مطابق 1936 میں ڈپٹی کمشنر اے اے میکڈونلڈ نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے دو کنال سے زائد اراضی پر کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ کی بلڈنگ بھی بنوائی، جس کا افتتاح 19 جولائی 1936 کو کمشنر ملتان ڈویژن سی وی سلسبری نے کیا تھا۔
ان کے بقول: ’یہ عمارت آج بھی موجود ہے لیکن مناسب دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے شکستہ حالی کا شکار ہے اور بارشوں کے دوران اس کی چھت جگہ جگہ سے ٹپکنا شروع کر دیتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ کو ہر سال سینکٹروں طلبہ کی طرف سے وظیفے کے لیے درخواستیں موصول ہوتی تھیں اور ہر سال تقریباً 500 سے 600 طلبہ کو وظائف دیئے جاتے تھے۔
’طالبات کو چھٹی کلاس سے جبکہ طلبہ کو گیارہویں جماعت سے وظیفے کا اجرا شروع کیا جاتا تھا۔ جو ہائر ایجوکیشن میں چلے جاتے تھے، انجینیئرنگ میں چلے گئے، میڈیکل کالجز میں چلے گئے یا کسی دوسری جگہ پر چلے گئے ان کو وظیفہ زیادہ دیا جاتا تھا اور ہاسٹل کا خرچہ بھی دیا جاتا تھا۔‘
سلیم جہانگیر چھٹہ کے مطابق اب تک اس ٹرسٹ سے لاکھوں طلبہ کو اربوں روپے کی رقم بطور وظیفہ دی جا چکی ہے۔
’وہ رقم چونکہ جوں کی توں رہی اور اس پر باقاعدہ انٹرسٹ آتا تھا اور اس سے کوئی خرچہ نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ ٹرسٹی اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے۔ وہ چائے کی پیالی تک اپنے پیسوں سے پیتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر 2019 سے کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ سے طلبہ کو وظائف کی ادائیگی رکی ہوئی ہے اور اب کچھ گروپس نے اس کی عمارت کو بھی اپنے نام الاٹ کروانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جس پر اس ٹرسٹ کو بقا کا خطرہ درپیش ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب سے انہوں نے گورنر پنجاب کو کیلہ گفٹ فنڈ ٹرسٹ کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے درخواست دی ہے تو انہیں ایسے ایسے لوگوں کے ٹیلی فون آ رہے ہیں جو بہت اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی کیلہ گفٹ فنڈ کا وظیفہ لے کر آئے تھے اور یہ ادارے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے اپیل کی ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر اس ٹرسٹ سے تعلیمی وظائف کے اجرا کو دوبارہ بحال کرنے اور اس کی تاریخی عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
ان کے بقول: ’گورنر پنجاب اس کے پیٹرن انچیف ہیں، ان کو ذاتی دلچسپی لینی چاہیے اور عوامی مفاد میں، کسان کے مفاد میں اور ان کے بچوں کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے اس کو فعال ہونا چاہیے۔‘