’وائٹ کالر دہشت گرد‘

میڈیا کو کشمیر کے بارے میں شاید پہلے ہی ہدایات ہیں کہ پوری آبادی کی امیج کو اتنا مسخ کرنا ہے کہ راہ چلتے لوگ بھی ان سے نفرت کرنے لگیں، انہیں کوسیں اور اپنے گھروں سے نکالیں۔

11  نومبر، 2025 کی اس تصویر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر میں انڈین فورسز ایک کشمیری کی تلاشی لیتے ہوئے(اے ایف پی)

محمد اکبر چنار کے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے پتوں کو کبھی پیروں کے نیچے مسل رہے ہیں تو کبھی ہتھیلی پر ان کی پیمائش کر رہیں ہیں۔ دن بھر پتوں کو جمع کرکے شاید اندھیرے کا انتظار تھا تاکہ ان کو جلا کر کوئلہ بنا سکیں۔ آج نہ اکبر کا دل قابو میں ہے نہ سکون ہے اور نہ آنسو رُک رہے ہیں۔

یہ کیفیت صرف محمد اکبر کی نہیں بلکہ کشمیر کے ہر اس والد کی ہے جو پرتشدد حالات کے ہوتے ہوئے سب کچھ بیچ باچ کر اپنے بیٹے کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے۔

دہلی کے حالیہ حملے کے بعد ’وائٹ کالر دہشت گردی‘ کے لیبل سے اکبر کا یہ خواب اب چکنا چور ہورہا ہے۔

لال قلعے میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے میں چند کشمیری ڈاکٹروں کے ملوث ہونے اور اس کے بعد نوگام میں بم بنانے والے مواد کے دھماکے نے وادی اور وادی سے باہر کشمیریوں پر ایسی دہشت بٹھا دی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں۔

اکبر کا بیٹا راحیل بنگلور میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہیں ملازمت پر کرتا ہے لیکن ہزاروں نوجوانوں کی طرح خوف میں ہے کہ خدا نخواستہ کہیں بھی کوئی حملہ ہوا تو عذاب لازمی ان پر نازل ہو گا۔

لفظ کشمیری انڈیا میں ایک گالی جیسا بن گیا ہے اور جہاں بھی کشمیری ہے اس کو دہشت گرد سمجھا جانے لگا ہے۔

اس کاکچھ سہرا انڈین میڈیا کو جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ انہیں اس کے لیے بہترین ایوارڈ بھی دیا جائے۔

ایک جانب کریک ڈاؤن کے دوران باہر رہنے والے کئی کشمیریوں کو حراست، تفتیش اور ذلت سے گزرنا پڑ رہا ہے دوسری جانب وادی کے اندر ایسا شاید ہی کوئی ضلع رہا ہوگا کہ جہاں تلاشی یا گرفتا ری نہ کی گئی ہو۔

غرض کشمیری مسلمان نہ اپنے گھر میں محفوظ ہے اور نہ باہر، انڈیا کی کسی بھی ریاست میں۔

انڈیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گرد کارروائی ہوتی ہے، کشمیریوں کو دھر لیا جاتا ہے بجائے پہلے ان چند دہشت گردوں کا پتہ کیا جائے کہ جو اس خون خرابے میں ملوث ہیں۔

بقول محمد اکبر ’وادی کے اندر اور باہر ہر کسی کو تختہ مشق بنانے سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایک پوری قوم کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ایک کروڑ آبادی اس وقت محسوس کر رہی ہے۔‘

پھر یہ سوال بھی ہے کہ اگر فرید آباد میں اتنا کیمیائی مواد پکڑنے سے ایسے حملوں کا پتہ چلا تھا تو ان کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی جب سرکاری جاسوسوں کا پورے ملک میں جال پھیلایا گیا ہے۔

لال قلعے کے بغل میں جب ’دہشت گرد‘ حملہ ہوا تو کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ سخت سکیورٹی اور سراغ رساں اداروں کے ہوتے ہوئے یہ ایسی جگہ کیسے ہوا جہاں چند گز کے فاصلے پر وزیراعظم اور صدر رہتے ہیں یا پارلیمان موجود ہے۔

2014 کے بعد یہ کیسی ریت بنی ہے کہ کسی پر ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی، کسی کو اختیار ہی نہیں کہ وہ ملک کے وزیراعظم یا وزیرداخلہ سے پوچھیں کہ انہوں نے کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد کہا تھا کہ کشمیر کے ساتھ پورے ملک کو محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ بندوق برداروں کا قلع قمع اور خطے میں امن اور ترقی کا دور شروع ہوا ہے پھر یہ واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں۔

دہلی کے صحافی اشیش بھردواج کہتے ہیں کہ ’اپریل میں پہلگام حملے کے بعد آپریشن سندور کیا گیا اور کئی بار دہرایا گیا کہ یہ آپریشن جاری رہے گا مگر اس بار جیش محمد کو ذمہ دار ٹھہرا کر شاید پاکستان کو بخشا گیا ہے۔ سرکار کی اس پالیسی سے عام لوگ بھی پریشان ہیں کہ کیا ہم حالت جنگ میں ہیں یا یہ پھر محض جملہ بازی ہے، ان حالات میں کشمیری پس رہے ہیں۔‘

میڈیا کو کشمیر کے بارے میں شاید پہلے ہی ہدایات ہیں کہ پوری آبادی کی امیج کو اتنا مسخ کرنا ہے کہ راہ چلتے لوگ بھی ان سے نفرت کرنے لگیں، انہیں کوسیں اور اپنے گھروں سے نکالیں۔

دہلی میں بعض رپورٹوں کے مطابق تمام بستیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مقامی پولیس کو ہر کشمیری کی موجودگی کی اطلاع دیں۔

یہ کاروائی آئین کے کس زمرے میں آتی ہے یہ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ دہشت گرد قرار دینے کا جو سرکاری فرمان جاری ہوتا ہے اس کو بغیر کسی چھان بین کے میڈیا اتنی تشہیر کرتا ہے کہ دوسری ریاستوں میں رہنے والے کئی کشمیری خاندان رات کے اندھیرے میں بھاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

حیدآباد دکن کے رئیس الاسلام کہتے ہیں کہ ’چوں کہ کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان بھی اس وقت ہندوتوا کے عذاب سے گزر رہی ہے لہٰذا دہلی کے حملے میں چند غیر کشمیری مسلمانوں کے ملوث ہونے کا جواز بنا کر بیشتر خاندان عتاب کا شکار بنائے جا رہے ہیں ان کی املاک، روزگار اور زندہ رہنے کے تمام وسائل پر قبضہ کیا جانے لگا ہے۔‘

اب تو یہ معمول بن رہا ہے کہ مسلمانوں کی مظلومیت کے باوجود ان کو ہی مجرم قرار دیا جارہا ہے اور اگر انتہا پسند ہندو مجرم ہے تو اس کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں جس کی مثال گجرات میں ریپ کی شکار بلقیس بانو کے مجرموں کی دی جا سکتی ہے جنہیں ضمانت پر رہا کرنے کے بعد پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ستم بالائے ستم یہ کہ کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دینے میں میڈیا نے ذرا بھی تامل نہیں کیا مگر جب نوگام کے پر اسرار دھماکے میں نو کشمیری مسلمانوں کی موت ہوئی تو اس پر مکمل خاموشی اختیار کی جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا حتی کہ مقامی سیاست دانوں نے تین دن کے بعد اس وقت خاموشی توڑی جب چند سوشل میڈیا چنلز نے ہمت کر کے اس پر کئی سوال اُٹھائے۔

پتہ چلا کہ رات کے اندھیرے میں اس امونیم نائٹریٹ کا ٹیسٹ کیا جا رہا تھا جس کی مقدار تقریباً 250 کلو گرام ہے اور کئی محکموں کے ملازمین کو اس کے تجزیہ کے لیے بلایا گیا تھا۔

کشمیر کے اندر اور باہر جو ماحول بنایا گیا ہے اس میں محمد اکبر کا بیٹا ہی کیوں، دوسری ریاستوں میں پانچ لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں جو خوف کی وجہ سے روزگار یا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

جہاں بعض سکیورٹی ادارے انہیں مشکوک سمجھ کر ہراساں کرنے کی سند لیے پھرتے ہیں وہیں اب عام لوگ انہیں اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر ان کے لیے زمین تنگ کر تے جا رہے ہیں۔

کشمیر کے ہر شعبے کو تباہ کر کے اب آخری امید ان بچوں سے تھی جنہیں والدین اپنا سب کچھ داو پر لگا کر حصول تعلیم کے لیے باہر بھیجتے ہیں انہیں اب ’وائٹ کالر دہشت گرد‘ ' سمجھ کر کون قبول کرے گا اور اپنے گھروں میں پناہ دے گا؟ کیا اس کا جواب کوئی دے سکتا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر