واشنگٹن میں افغان شہری کا حملہ سنجیدہ خطرات کی عکاسی کرتا ہے: پاکستان

پاکستان نے فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے جمعے کو کہا ہے کہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مؤثر اور مضبوط تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

26 نومبر 2025 کو ایک عینی شاہد کی بنائی گئی ویڈیو سے لیے گئے سکرین گریب میں سکیورٹی اہلکار وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کے نتیجے میں نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں کے زخمی ہونے کے بعد جائے وقوعہ پر موجود ہیں (روئٹرز)

پاکستان نے واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب افغان شہری کی جانب سے فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جمعے کو کہا ہے کہ یہ واقعہ سرحد پار دہشت گردی سے جنم لینے والے سنجیدہ خطرات کا عکاس ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر مؤثر اور مضبوط تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قریب گذشتہ بدھ کو ایک فغان شہری کی فائرنگ سے امریکی نیشنل گارڈ کے دو اہلکار زخمی ہوئے تھے جن میں سے ویسٹ ورجینیا کی زخمی ہونے والی 20 سالہ سپیشلسٹ سارہ بیکسٹروم جمعرات کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں جبکہ 24 سالہ سٹاف سارجنٹ اینڈریو وولف ’زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘

29 سالہ افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کو فائرنگ کا ملزم نامزد کیا گیا ہے اور وہ ماضی میں افغانستان میں امریکی افواج کے ساتھ کام کر چکا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فائرنگ کے اس واقعے واقعے کو ’دہشت گرد حملہ‘ قرار دیا اور بائیڈن انتظامیہ کو ان افغانوں کے امریکہ میں داخلے کو ممکن بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے افغان جنگ کے دوران امریکی افواج کے ساتھ کام کیا تھا۔ 

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان میں فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’حملہ دہشت گردی کا واضح مظہر ہے اور امریکی سرزمین پر ایک سنگین جرم کے مترادف ہے۔‘

وزارت خارجہ نے کہا کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان خود ایسے ’بے شمار دہشت گردانہ واقعات کا سامنا کرتا رہا ہے جن کا تانا بانا افغانستان سے ملتا ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان کے مابین اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تناؤ کی کیفیت ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں اور انہیں انڈین سرپرستی حاصل ہے، لیکن کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے ہیں۔

افغانستان نے رواں ہفتے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے خوست میں فضائی حملے کیے جن میں 10 افراد مارے گئے، لیکن پاکستان فوج نے اس کی تردید یہ کہتے ہوئے کی کہ ’ہماری پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہے، افغان عوام کے خلاف نہیں۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’سرحد پار دہشت گردی عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اس کے خاتمے کے لیے نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ’دہشت گردی‘ کے خلاف مشترکہ کوششیں جاری رکھے گا۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ ’دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کاوشوں کو مزید مؤثر اور فعال بنایا جائے تاکہ ایسے واقعات کا سدباب کیا جا سکے اور عالمی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

تاجکستان حملہ

اس سے ایک روز قبل پاکستان نے تاجکستان میں افغان سرحد کے قریب چینی شہریوں کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے چینی اور تاجک حکومتوں اور عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا بھی تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا: ’پاکستان چینی باشندوں پر ہونے والے اس بزدلانہ حملے کی واشگاف الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ اس واقعے میں مسلح ڈرونز کے استعمال، افغانستان سے جنم لینے والے خطرے کی سنگینی اور اس میں ملوث عناصر کی دیدہ دلیری کو اجاگر کرتا ہے۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاجک حکام نے جمعرات کو بتایا کہ تاجکستان میں افغانستان سے سرحد کے قریب کیے گئے ایک حملے میں تین چینی کارکن جان سے گئے۔

تاجکستان کے افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور حالیہ مہینوں میں متعدد بار سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان