شام میں جنگ بندی کے وعدے پر ترکی پر عائد امریکی پابندیاں ختم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے میں تعینات تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ ’دوسرے ملکوں کو ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔

امریکی نائب صدر ما ئیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک مومپیو کے ہمراہ بدھ کو ایک تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوششوں کے باعث روس کے تعاون سے انقرہ اور شام میں کرد فورسز کے درمیان امن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا  (اے ایف پی)

انقرہ کی جانب سے شمالی شام میں مکمل جنگ بندی کے وعدے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ترکی پر عائد امریکی پابندیاں ختم کر دیں گے۔

امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک مومپیو کے ہمراہ بدھ کو ایک تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوششوں کے باعث روس کے تعاون سے انقرہ اور شام میں کرد فورسز کے درمیان امن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے ہزاروں جانیں بچا لیں۔  

انہوں نے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ناکام جنگوں پر آٹھ ٹریلین  ڈالر خرچ کر چکا ہے جس میں بہت زیادہ امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے عہد کیا کہ واشنگٹن ’ایک مختلف راہ اختیار کرے گا۔‘

وائٹ ہاوس میں ہونے والی تقریر میں انہوں نے کہا: ’ترکی کی حکومت نے میری حکومت کو اطلاع دی ہے کہ وہ شام میں جاری اپنی فوجی کارروائیاں روکیں گے ۔۔۔ اس لیے میں نے وزیر خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ (ترکی پر) تمام پابندیاں ہٹا دیں۔‘

صدر ٹرمپ نے مزید کہا: ’اگر ترکی نے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا تو ہم سخت پابندیاں پھر لگا سکتے ہیں۔‘

انہوں شام سے اپنی فوج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں دوسرے ملکوں کو ’آخر کار یہ ذمہ داری اٹھانے پڑے گی۔‘

انہوں نے کہا: ’کسی اور کو اس خون آلود مٹی پر لڑنے دیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی نے رواں ماہ شمالی شام کے سرحدی علاقوں میں ایک متنازع آپریشن شروع کیا تھا جس کا مقصد وہاں سے کرد  جنگجووں کو وہاں سے نکال کر کے  شام کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک ’بفر زون‘ بنانا تھا۔

دو ہفتے سے جاری اس کارروائی میں اب تک ایک لاکھ 76 ہزار افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ کردوں کی قید میں داعش کے تقریباً 500 جنگجو  بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

اس کے نتیجے میں امریکی صدر نے ترکی کے ساتھ جاری ایک تجارتی معاہدے پر مذاکرات روک دیے تھے، سٹیل پر ٹیرف 50 فیصد بڑھا دیے تھے اور  ترکی کے تین  سینیئر اہلکاروں اور دفاعی اور توانائی کی وزارتوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

تاہم  امریکی صدر پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے شام میں امریکہ کے ایک ہزار فوجیوں کو انخلا کا حکم دے کر ترکی کو اس آپریشن کے لیے ’ہری جھنڈی‘ دی تھی۔  

امریکی فوج کے شام سے انخلا کو کرد جنگجووں کو چھوڑ دینے کے برابر سمجھا جا رہا تھا جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ مل کر داعش کا مقابلہ کرنے میں ہزاروں جنگجو کھوئے ہیں۔

ترکی کے حملے کے بعد کرد شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جس کے بعد شامی حکومت نے اپنی فوج کو سرحد پر تعینات کر دیا۔

منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور روسی صدر ولادمیر پوتن نے ایک ڈیل پر اتفاق کیا جس کے تحت ترکی اپنی کارروائی روک دے گا اگر کرد فورسز اس بات پر راضی ہوجائیں کہ وہ 30 کلومیٹر تک کے بفر زون سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور روس اور ترکی اس میں مشترکہ گشت کریں گے۔  

شام میں معاہدے کی تنقید کی جا رہی ہے۔ کرد شہریوں نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ ان کو ترکی کی حمایت یافتہ فورسز سے بدلے کا ڈر ہے۔ دوسرے کرد شہریوں نے شام میں ترکی کے بڑھتے قدموں پر تشویش کا اظہار کیا۔

صدر اردوغان اور پوتن کے درمیاں معاہدہ تب ہوا جب منگل کی رات امریکہ کی مدد سے قائم کی گئی سیز فائر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو ہونے والی ڈیل کا سہرا اپنے سر لیتے ہوئے کہا: ’ہم نے اچھا کام کیا۔ ہم نے بہت سی زندگیاں بچائیں۔‘

شامی کرد کمانڈر مضلوم عابدی نے بعد میں ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ترکی کے ساتھ امن صدر ٹرمپ کی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

بدھ کو اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ شام میں امریکی فوج کا بیشتر حصہ مغربی عراق چلا جائے گا، مگر صرف ایک چھوٹی نفری رہے گی جو داعش جیسے گروپوں سے آئیل فیلڈز کی حفاظت کرے گی۔

تاہم امریکی فوج کو ہمیشہ کے لیے عراق میں رہنے کی اجازت نہیں۔

عراق کے وزیر دفاع نجاہ الشماری نے بدھ کو کہا کہ امریکی فوجیوں کو چار ہفتوں میں ملک چھوڑنا ہوگا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا