نشانہ بننے والے امریکی اڈوں کی اہمیت کیا ہے؟

امریکی درجن بھر جبکہ ایرانی حکام 30 بیلسٹک میزائل داغنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ان دو اڈوں میں سے ایک عین الاسد فضائیہ کا اڈہ ہے اور دوسرا اربل میں واقع ہے۔

امریکی صدر نے پچھلے سال کرسمس کے موقعےپر   الاسد بیس کا  اچانک دورہ کیا تھا  (اے پی)

 

ایران کے پاسداران انقلاب نے منگل کی شام قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے جواب میں عراق میں دو امریکی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ان اڈوں پر 30 بیلسٹک میزائل داغے ہیں، البتہ امریکہ کا کہنا ہے کہ میزائلوں کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔ ان دو اڈوں میں سے ایک عین الاسد فضائیہ کا اڈہ ہے اور دوسرا اربل میں واقع ہے۔

عین الاسد مغربی عراق کے سنی اکثریتی صوبہ الانبار میں شام کی سرحد سے تقریباً 220 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ بلاد ایئر بیس کے بعد عراق کا دوسرا بڑا ہوائی اڈا ہے۔ اس اڈے کی جغرافیائی لحاظ سے انتہائی سٹرٹیجک اہمیت ہے۔ اس میں عراقی فوج کے ساتویں ڈویژن کا صدر مقام بھی قائم ہے جبکہ برطانوی فوجی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔

2003 میں یہ قدسیہ کے اڈے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ عراق کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ 1967 اور 1973 کی عرب جنگوں کے بعد 1975 میں بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ایک یوگوسلاوی کمپنی نے 1981 اور 1987 کے درمیان یہ اڈا تعمیر کیا تھا۔ اس میں مساجد، سویمنگ پولز، کھیلوں کا ہال، قلعہ بند گودام، ہسپتال، سکول، فوجی بیرکیں اور طیاروں کی پناہ گاہوں جیسی فوجی عمارتیں موجود ہیں جہاں پانچ ہزار فوجی رہ سکتے ہیں۔

اس ہوائی اڈے میں فضائی دفاع کی ایک فورس اور ایئر کنٹرول ٹاور بھی ہے جو ریڈاروں سے لیس ہے۔ یہ تین کلومیٹر لمبے رن وے پر مشتمل ہے۔

یہ اڈا ایک اونچے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے، جس کے محل وقوع کا انتخاب سابق عراقی صدر صدام حسین کی جانب سے اپنے ملک کو اسرائیلی حملے سے بچانا تھا۔ وہ اسی طرح دریائے فرات پر واقع الحدیدہ ڈیم کی حفاظت بھی کرنا چاہتے تھے، جو اس اڈے کے قریب واقع ہے۔

ایران عراق جنگ کے دوران یہاں ایم جی 21 اور مگ 25 کے تین سکواڈرن رکھے گئے تھے۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد امریکی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا اور اسے ہوائی اڈے اور فوجیوں اور رسد کی نقل و حمل کے ایک مرکزی مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ یہ سلسلہ 2011 تک جاری رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے ماضی میں عین الاسد کے اڈے پر حملے کرنے کی کوشش کی اور راکٹ فائر کیے جن کی وجہ سے اس کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔

2014 اس اڈے پر 300 امریکی فوجی، تربیتی عملہ اور مشیر، بین الاقوامی اتحاد کے جنگی طیارے اور 18 اپاچی ہیلی کاپٹر موجود رہے جنہوں نے دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری میں یہاں سے حصہ لیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 26 دسمبر 2018 کو اپنی اہلیہ میلانیا کے ہمراہ کرسمس کے موقعے پر اچانک اس اڈے کا دورہ کیا تھا۔ یہ اس وقت صدر ٹرمپ کا کسی جنگی محاذ کا پہلا دورہ تھا۔

اربیل ایئر بیس

اس بیس کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن 2015 میں ایک کرد اہلکار نے کہا تھا کہ امریکہ اس علاقے میں فضائی اڈا تعمیر کر رہا ہے جہاں سے جاسوسی طیارے پرواز کریں گے اور اس کا حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ بیس اربیل کے قریب تعمیر کی گئی تھی۔

کرد پیش مرگا فورس کے ایک ترجمان ہلگرد حکمت نے کہا تھا کہ یہ اڈا دولت اسلامیہ کے خلاف اس وقت سرگرم مخالف اتحاد کے تمام ممالک استعمال کر سکیں گے۔ تاہم پیٹاگون کے ترجمان ایڈمرل جان کربی نے اربیل میں اس وقت کسی بیس کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اربیل میں ہمارے چند تلاش اور امداد کے اثاثے موجود ہیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘

اس کی ایک بڑی وجہ عراقی حکومت کا کرد علاقوں میں کسی ایسے منصوبے کی مخالفت تھی جس سے وہاں کرد حکومت قائم ہونے میں مدد ملے۔

لیکن نیو یارک ٹائمز کے مطابق گذشتہ اکتوبر میں امریکی ڈیلٹا فورس کے کمانڈوز نے یہیں سے آٹھ شنوک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ابو بکر البغدادی کو مارنے کی کامیاب کارروائی کی تھی۔ بغدادی نے اس کارروائی سے بچنے کی خاطر خود کو بم سے اڑا دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا