سب انسان برابر نہیں ہوتے

کمیونزم کیوں نہیں چل سکا اور سرمایہ دار نظام کیوں چل گیا؟ جیسا جس کا ذہن ہے، حالات ہیں، وراثت ہے، صلاحیتیں ہیں، اس نے ویسے ہی نوٹ چھاپنے ہیں اور اسی طرح زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔

افریقہ میں رہنے والا ایک سیاہ فام پورے دل و جان سے یہ سمجھے کہ ہاں بھئی ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے برابر ہیں۔(پکسابے)

ہمیں بچپن سے آج تک سیاسی اور معاشرتی طور پہ یہ بات گھول کر پلائی گئی کہ سب انسان برابر ہیں۔ ابھی دو تین سال پہلے ایک دوست نے کہا کہ نہیں، یہ بات غلط ہے، جو آپ کو خوب صورت لگ رہا ہے وہ واقعی پرکشش ہے، جو نہیں لگ رہا وہ نہیں ہے۔ میں اس بات پر لڑ تو نہیں سکا لیکن مانی بھی نہیں۔

بڑا وقت گزر گیا لیکن جیسے بہتے پانی کے دریا میں بہت نیچے تہہ کے اندر کوئی شاپر کسی پتھر میں پھنسا ہو، اسی طرح یہ سوال بھی اڑا ہوا تھا۔ پرسوں وہ پتھر تیز بہاؤ کی وجہ سے ہٹ گیا۔ نہیں ہوتے، سب انسان برابر نہیں ہوتے۔
یہ نظریہ اصل میں اس انکلوسونیس کی وجہ سے ہے جو دنیا کی ہر ماڈرن تہذیب ہمیں سکھاتی ہے۔ انکلوسونیس کا مطلب یہ کہ ایسی کوئی بھی بات جو ساری دنیا کے تمام انسانوں کو آپ کی چھتری کے نیچے کھڑا کر دے۔ آخر ایسی بات کہنی کیوں ضروری ہے کہ دنیا کا ہر بندہ سمجھے جیسے اسی کے لیے وہ بات کی گئی ہے؟ اس لیے تاکہ آپ کا نظریہ فلاپ نہ ہو۔ افریقہ میں رہنے والا ایک سیاہ فام پورے دل و جان سے یہ سمجھے کہ ہاں بھئی ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے برابر ہیں۔ اس سافٹ خیال کے جھانسے میں وہ آپ کی باقی باتیں بھی مان لے گا۔

دنیا ویسے بھی ان لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو برے حالوں میں ہیں، انہیں کوئی سہولت میسر نہیں، تو انہیں اگر اس خیال کا ایک لالی پوپ دے دیا جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ یوں وہ جو انکلوسونیس ہے، اور جو ماڈرن دنیا کی برابری والی فلاسفی ہے، وہ شروع ہوتی سمجھ میں آتی ہے۔
اب یار آپ خود آپ کے سوچنے کی باری ہے۔ کیا بچپن سے آج تک کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ فلاں کلاس فیلو جو میرے برابر ہے تو اس کے پاس گاڑی کیوں ہے اور میرے پاس موٹر سائیکل کیوں؟ وہ روز باہر کے کھانے کھاتا ہے اور میں لنچ باکس کیوں کھولتا ہوں؟ اس کے بال سیدھے، گھنے اور اتنے لمبے کیوں ہیں اور میرے روکھے اور ایسے گھنگریالے کیوں ہیں؟ اس کی ناک ایسے کھڑی تلوار ہے اور میری ناک جیسے چینیوں کی ہوتی ہے، ویسی کیوں ہے؟ اس کے رنگ میں لالیاں کیوں گھلی لگتی ہیں اور میری مٹی جیسے تندور میں پکتی ہی رہ گئی ہو؟ اس کا قد اتنا لمبا ہے اور مجھے اگر دو تین انچ ہی مزید مل جاتے؟ اس کے پرس میں پیسے ابل رہے ہوتے ہیں اور مجھے تو پرس رکھنا بھی خرچہ لگتا ہے، اسے ہر سوال کا جواب فر فر آتا ہے، مجھے تو سوال سمجھ تک نہیں آتا، اس کے پاس آئی فون کا نیا ماڈل ہے میرے پاس بھائی کا پرانا فون پے، اس کی صحت ہمیشہ فٹ رہتی ہے میری بہتی ناک تک کبھی نہیں رکتی،  میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بتائیں، کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا؟
سوچا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ بھائی سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ یہ برابری والا سبق ہی اصل میں ہمیں ایسی ساری سوچیں سوچواتا ہے۔
پھر اسی برابری کے چکر میں رقابتیں پیدا ہوتی ہیں، آپ دوسروں سے نفرت کرتے ہیں، دوسرے آپ سے نفرت کرتے ہیں، جو اس کے پاس ہے وہ میرے پاس کیوں نہیں، جو میرے پاس ہے وہ اس کے پاس کیوں ہو؟ میرے پاس تو پہلے ہی کم تھا، اب یہ بھی نہیں رہا اور اس کے پاس پہلے بھی اتنا کچھ تھا، اب مزید فضل ربی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اتنا بلیسڈ کیوں ہے، میں اتنا فقٹا کیوں ہوں۔ یہ چیز جو ہے وہ کیا سوشل میڈیا ہو اور کیا آپ کی میری دنیا، ہر جگہ سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑی رہتی ہے۔ سب برابر ہیں تو برابری کیوں نہیں ہے؟ نہیں ہیں تو ایویں کیوں ہمیں خواب دکھائے جاتے ہیں؟
ایک آدمی امیر ماں باپ کے گھر پیدا ہوا اور ایک بچہ باہر جھونپڑ پٹی میں چارپائی پہ، وہ برابر کیسے ہیں؟ انہیں نہلا دھلا کے ساتھ رکھ دیں تو بھی وہ برابر نہیں ہیں۔ آپ کے ابا سہگلوں کی نسل سے ہیں، میرے باپ دادا لوہار تھے تو آپ اور میں کیسے برابر ہیں؟ آپ کی جینز میں دماغ کا زیادہ استعمال شامل ہے اور میرے جینز میں طاقت کا استعمال شامل ہے تو آپ اور میں برابری کیسے کریں گے؟ آپ کی وراثت میں چھ پلازے آئے اور میرے وارث بھوکے مرتے ہوں تو کس چیز کی برابری ہے؟ کیا میں کبھی آپ کے برابر آ سکتا ہوں یا آپ میرے لیول پہ آ سکتے ہیں؟ صرف فلموں میں یا موٹیویشنل سپیکرز کی فلموں میں، ورنہ سوچیں نا یار کون سی برابری، کیسی برابری؟
پھر عورتیں بے چاری جتنا مرضی لڑ لیں، بچے انہیں سے پیدا ہونے ہیں، بیس سال کی لڑکی ایک بچے کے بعد کیا اسی طاقت سے کھڑی بھی ہو سکتی ہے جو بیس سالہ مرد کے پاس ہوتی ہے؟ کیا اسے وہ سارے موقعے ملتے ہیں جو دنیا بھر میں لڑکوں کو میسر ہوتے ہیں؟ کیا تنخواہ، کیا باہر گھومنا پھرنا، کیا طاقت کے زور پہ اپنی بات منوانا، کیا جنگ کرنا، کیا ملکوں کی سیاست چلانا، کیا کوئی نیا اخلاقی ضابطہ پیش کرنا ۔۔۔۔ کتنی مثالیں ہیں؟ وہی رضیہ سلطانہ، بھوپال کی بیگمات، مادام کیوری، مدر ٹریسا، رتھ فاؤ؟ لیکن کیسی پریشانیوں میں یہ خود مبتلا ہوں گی وہ کبھی سوچا؟ کن تیکھے سوالوں سے گزرتی ہوں گی یہ کبھی حساب لگایا؟ خود اندر کے بھی سوال اور باہر کے بھی سوال؟ کیسے مردوں سے لڑتی ہوں گی اور کیا کبھی تھکی نہیں ہوں گی؟ کتنے ارمان ان کے بھی ہوں گے، مطلب یہ کیسی برابری ہے کہ ایک فریق کو اپنا آپ منوانا پڑے اور دوسرا وہ سب کچھ رکھنے کا حق لے کے پیدا ہوا ہو؟ اب یہاں وہی جھونپڑ پٹی میں پیدا ہوا لڑکا اٹھا لیں اور امیر ماں باپ کے یہاں پیدا ہوئی بیٹی اٹھا لیں، کیا وہ بیٹی کبھی نہیں سوچتی ہو گی کہ یار میں ادھر غریب غربوں میں پیدا ہو جاتی، سانس لینے کی آزادی تو ہوتی؟ یا اور کچھ نہیں تو ہر مہینے پیریڈز کا رپھڑ، کیا یہ عورت کی صلاحیتیں دو تین دن کے لیے بالکل سوئچ آف نہیں کرتا؟ کون کس کے برابر ہے، کیسے ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس برابری کے فاصلے کو پھلانگتے پھلانگتے ہماری سانسیں ٹوٹنے لگتی ہیں، بال چٹے سفید ہو جاتے ہیں، کمر ٹوٹ جاتی ہے، ہڈیاں درد کرنے لگتی ہیں، دنیا کو لیکچر پلاتے رہتے ہیں لیکن برابری ہے کہ کبھی پاس آ کے جھلک نہیں دکھاتی۔ یہ سبق ٹھیک نہیں ہے۔ جو جہاں پیدا ہو گیا بس اس کا عمومی مستقبل طے ہو گیا۔ اب محنت ہے، قسمت ہے، کوئی ایک گھڑی ہو سکتی ہے جو اسے بہتر یا کمتر حالات میں لے جائے ورنہ استاد جی گلاں ای بنیاں نیں!
یقین کریں کہ یہ جو کسی بھی معذور انسان کو آپ سپیشل کہتے ہیں اسے یہ تمغہ کیسا لگتا ہے آپ سوچ نہیں سکتے۔ جس کا ہاتھ نہیں ہے، وہ نہیں ہے، جو بول نہیں سکتا، اسے پتہ ہے کہ اس کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے، جس کا پیر خراب ہے، اس علم ہے کہ وہ نارمل نہیں ہے، اسے پتہ ہے کہ وہ باہر نکلے گا تو لوگ اسے ہمدردی کی نظر سے دیکھیں گے، یہ عام انسانی رویہ ہے، یہ نہیں بدل سکتا۔ اسے سپیشل کہہ دینے سے کچھ بھی سپیشل نہیں ہوتا، اسے ضرورت ہوتی ہے روزگار کی، نارمل زندگی کی، وہ دے سکتے ہیں تو بسم اللہ ورنہ کوئی فائدہ نہیں سافٹ لفظوں کا، وہ ویسے ہی رہے گا۔

ایک بندے کو کینسر ہو گیا، دل کی لاعلاج بیماری ہو گئی، کوئی اور ایسا مرض ہو گیا جو اس کی جان قطرہ قطرہ نچوڑ رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں فائٹ بریولی؟ تم ایک فائٹر ہو؟ حد ہے! وہ اس بیماری میں آپ کی ہمدردی کا بھرم رکھنے کو آپ کے سامنے فائٹر بن جائے گا لیکن اندر سے وہ کس عذاب سے گزر رہا ہے یہ آپ کبھی نہیں سوچ سکتے۔ کوئی فائدہ نہیں اسے فائٹر کہنے کا، اس کی خواہشات پوری کریں۔ اسے کہیں کہ یار مجھے پتہ ہے تو جانے والا ہے، جب تک دنیا میں ہے جو دل چاہتا ہے وہ کر، فلاں چیز سے پرہیز ہے؟ دل کرتا ہے کھانے کا؟ کھا، عیاشی کر! یہاں سے حسرتیں لے کے نہ جا۔ فائٹر کہنے میں آپ کا فائدہ ہے اور بدپرہیزی میں اس کا۔ نہیں سمجھ آئی، چھوڑ دیں!
کل ملا کے یہ سب مصنوعی رویے ہیں، اور ایویں حقیقت سے منہ موڑنے والی باتیں ہیں جو ہمیں ساری زندگی خواہ مخواہ ہلکان کرتی ہیں۔ اگر مجھے پیدا ہوتے ہی بتایا جاتا کہ سب انسان برابر نہیں ہیں تو مجھے کیا فرق پڑتا؟

بس اتنا کہ میں کسی کی برابری کے لیے خواہ مخواہ جانوروں کی طرح ہلکان نہ ہوتا؟ اور جانور بھی کیا؟ وہ تو بلکہ اس ٹینشن سے آزاد ہیں۔ یہ جذبے تو انسان کے ہی مقدر کا روگ ہیں۔ برابری، فائٹر پن، سپیشلی ایبلڈ، یہ کیا ہے؟ لفظ ہیں، ان کی اہمیت کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، اپنا اور دنیا کا ایک سافٹ امیج دکھانے کی کوشش، انکلوسونیس کے جھنڈے میں سب کو جمع کرنے کا طریقہ۔ کمیونزم کیوں نہیں چل سکا اور سرمایہ دار نظام کیوں چل گیا؟ جیسا جس کا ذہن ہے، حالات ہیں، وراثت ہے، صلاحیتیں ہیں، اس نے ویسے ہی نوٹ چھاپنے ہیں اور اسی طرح زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔ نیویں نیویں ہو کے لنگھدے جائیں، معجزوں کی توقعات فضول ہیں، برابری وغیرہ نظر کا دھوکہ ہے، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ سوہنا سچا حالات بہتر کرے، بندیاں دے بس وچ گلاں ای نیں، کیتی رکھو!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ