ہمیں کرونا کچھ نہیں کہہ سکتا

ہم اس بیماری کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ابھی تک پولیو اور ملیریا جیسی بیماریوں سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہیں، جس پر زیادہ تر دنیا قابو پا چکی ہے۔

باقی دعا کریں کہ جلد از جلد کڑاکے کی گرمیاں شروع ہو جائیں اور یہ وائرس گرمی سے اتنا ہی گھبراتا ہو جتنا ہم ڈرتے ہیں (اے ایف پی)

کسی نے ایک روزہ خور سے پوچھا کہ ’اس دفعہ جولائی میں روزے آ رہے ہیں، کیا کرو گے؟‘

اس نے جواب دیا، ’ہم نے جون کے روزے کھائے ہیں یہ تو پھر جولائی کے ہیں!‘

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم نے بہت وائرسوں کا سامنا کیا ہے تو یہاں کے لوگ کچھ نہ کچھ اس وائرس کا بھی جگاڑ نکال ہی لیں گے، جس کا ہم عملی نمونہ ہم دیکھ رہے ہیں  کہ روزانہ نئے نئے ٹوٹکے میدان میں آرہے ہیں کہ یہ کروناوائرس کا علاج ہے۔

ایک بابا نے تو شرطیہ کرونا وائرس کے علاج کےلیے اشتہارات تک لگا دیے ہیں۔ اس طرح ہومیو ڈاکٹروں نے بھی اپنی دوائیوں کی مارکیٹنگ شروع کر دی ہے کہ اس سے کرونا کا علاج ممکن ہے۔ دوسری طرف دم درود والے بابا جی لوگوں نے بھی اپنی دکانداری چمکا لی ہے۔

خدا نہ کرے یہ بیماری ملک میں آئے ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم ابھی تک پولیو اور ملیریا جیسی بیماریوں سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہیں، جس پر زیادہ تر دنیا قابو پا چکی ہے۔ اس کرونا آفت نے تو آفت مچانی ہی ہے مگر پھر بھی لوگوں کی زبانوں پر ایک ورد ہے کہ کرونا وائرس ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اس کا تجربہ یونیورسٹی سے ویک اینڈ پر آنے کے بعد مجھے ہو گیا جب گاڑی میں گھر تک پہنچتے پہنچتے راستے میں بیس سے تیس لوگوں سے مصافحہ کرنا پڑا۔ اُن میں کچھ کے گلے بھی لگ گئے حالانکہ واضح احکامات ہیں کہ ہاتھ ملانا بند کر دیں، ایک دوسرے سے تھوڑا فاصلہ رکھیں۔ اپنے چہرے کو بھی نہ چھوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر ہمارے معاشرے میں یہ کہاں ممکن ہے۔ ایک دوست کو جھک کر دور سے سلام کیا۔ اُس کا نزدیک آتے ہی جواب تھا، ’خالی ہاتھ سے کام نہیں چلے گا دس دنوں کے بعد ملے ہو گلے ملنا تو لازمی ہو گا۔‘

نہ چاہتے ہوئے گلے ملے۔ گھر پہنچے تو بچوں نے کہا کہ کرونا وائرس ہے، دور رہیں، مگر ہم نے کہا کہ کرونا ہمیں کچھ نہیں کہتا۔

صبح سوچا کہ بازار سنسان ہوں گے کیونکہ تعلیمی اداروں کی چھٹیاں ہو گئی ہیں اور لوگوں کو بھیڑبھاڑ والی جگہوں پر جانے سے منع کیا گیا ہے۔ سوچا بازار بند ہوگا سودا کہاں سے ملے گا۔

مگر یہ کیا، بازار پہلے سے زیادہ بھرا ہوا تھا۔ ذکر ہر جگہ کرونا کا تھا مگر سب گلے مل رہے تھے۔ ہمیں بھی ہائے ہیلو کرنی تھی۔ دور دور رہے تو کچھ نے کہا کہ ،ملتے کیوں نہیں ہو کیا کرونا سے ڈر رہے ہو۔ جو رات قبر میں آنی ہے، باہر نہیں آئے گی۔‘

ایک دوست سے ملنے گئے جو چار مہینے تبلیغ میں گزار کر آئے تھا۔ اتنے عرصے کے بعد گلے ملنا تو بنتا تھا سو مل لیے۔ کافی باتیں ہوئیں۔

اُس نے کہا کہ یہ بیماری غیرملکیوں کی بیماری ہے، ہماری نہیں۔ یورپ اور چین والے حرام کھاتے ہیں۔ اور پھیلی بھی وہی سے ہے یعنی یہ بیماری بھی کافر ٹھہری کیونکہ یہ اُن پر عذاب ہے۔ مسلمان بہت کم مرے ہیں یعنی مسلمانوں کے لیے کوئی وبا مسلمان ملک سے نکلے گی۔

ایک بچپن کے دوست کی رحلت کی خبر سنی دعا سے جنازے تک سب کرونا کے بارے میں ہی بات ہو رہی تھی سب گلے مل رہے تھے۔ مصافحے کر رہے تھے ہم نے بھی تین درجن مصافحے کیے، ایک درجن لوگوں کو گلے لگایا۔

اس کے بعد میرا بھی یہ یقین پختہ ہو گیا ہے کہ واقعی میں کرونا وائرس ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

باقی دعا کریں کہ جلد از جلد کڑاکے کی گرمیاں شروع ہو جائیں اور یہ وائرس گرمی سے اتنا ہی گھبراتا ہو جتنا ہم ڈرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ